جن کے بارے میں مذاق اورطنزیہ طورپریہ کہاجاتاہے کہ ،،ملاں کی دوڑمسجدتک،،اسی ملاں نے کرونائی دوراورقیامت جیسی گھڑی میں نہ صرف مسجدومدرسے۔۔ بلکہ کراچی سے گلگت ،چترال سے سوات اورپشاورسے کاغان تک ایسی دوڑلگائی کہ اٹھتے بیٹھتے ،،ملاں کی دوڑمسجدتک،،کہنے والے بھی منہ دیکھتے رہ گئے۔ ملاں کے مقابلے میں جن کی دوڑامریکہ،برطانیہ،آسٹریلیا،جاپان،دبئی اوربھارت سمیت دنیاکے کونے کونے تک تھی۔ تمام تروسائل،طاقت،مشینری،وزارت اورحکومت کے باوجود کروناکے موسم میں وہ مسجدتک بھی دوڑنہیں لگاسکے۔ ایک ایسے وقت میں جب وزارت تعلیم کیا۔۔؟ پوری حکومت نے بھی تعلیم وتعلم سے ہاتھ کھڑے کیئے۔ یہاں تک کہ سرکارکے زیرانتظام تمام سکول وکالجزمیں میٹرک اورانٹرکے امتحانات بھی منسوخ کیئے گئے۔ ایسے وقت میں ملاں کا وفاق المدارس کے سائے تلے پورے ملک میں درجہ اولیٰ سے لیکر دورہ حدیث تک تمام دینی مدارس کے طلبہ کاحکومتی ایس اوپیزکے تحت ایک ساتھ امتحانات کا انعقاداس ملاں کی کامیابی نہیں تواور کیا ہے۔۔؟
وفاق المدارس کے ان امتحانات نے ایک بات اورحقیقت پوری دنیاپر واضح کردی ہے کہ نیت صاف،جذبہ جوان،دل میں اخلاص اوربھروسہ اگردنیاوی طاقت نہیں خداپرہوتوپھرمسٹراورمنسٹرکیا۔۔؟مسجدتک دوڑنے والے ایک غریب ملاکے لئے بھی کوئی چیزمشکل اورناممکن نہیں۔ خداپرتوکل اوراخلاص ہی کا نتیجہ توہے کہ جوکام سرکارکی چھتری تلے سرکاری سکولزکالجزاورتعلیمی بورڈزکے منتظمین نہ کرسکے وہ بے سروسامانی کے عالم میں قال اللہ اورقال رسول اللہ ﷺکی صدالگانے والے ملانے کرکے دکھادیا۔ملک بھرمیں وفاق المدارس کے امتحانات کاکامیاب انعقادیہ ہم جیسے مسٹرکے پجاریوں کے لئے ،،شرم سے ڈوب مرنے،، کامقام نہ صحیح ایک مثال توہے۔ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ ہمارے مسٹربے شک ملانہ بنے لیکن تعلیمی بورڈزکے امتحانات کے سلسلے میں کم ازکم ایک بارملابن کردیکھیں توصحیح ۔
وفاق المدارس کے زیراہتمام جس طرح کروناکی وباء کے دوران کراچی سے گلگت اورچترال سے کشمیرتک ہزاروں اورلاکھوں طلباء وطالبات کے ایک ساتھ امتحانات ہوئے اس طرح اگرہمارے کسی سرکاری تعلیمی بورڈکے زیرانتظام امتحانات ہوتے تویقینناًان امتحانات کی وجہ سے پھرملک وقوم کولازمی طورپرکروناکے دوہرے عذاب سے گزرناپڑتا۔ ہونے کے لئے سرکاری سطح پربھی اس طرح امتحانات ہوجاتے لیکن ان امتحانات کے بعدپھرہرطرف ہمیں کروناہی کروناکے عذاب سے گزرناپڑتا۔کیونکہ ہمارے سرکاری تعلیمی بورڈزاوردینی مدارس کے امتحانات میں کوئی معمولی نہیں بلکہ زمین سے آسمان تک کافرق ہے۔سرکاری سکولزوکالجزمیں پڑھنے والے ہمارے بچوں کی اس طرح ذہن سازی اورتربیت ہوئی ہے کہ اب امتحانات کے دوران وہ نقل کونہ صرف ایک فرض اورقرض بلکہ اپناایک حق بھی سمجھنے لگے ہیں۔اسی وجہ سے ان سکولزوکالجزمیں پڑھنے والے ہمارے بچے جب امتحان کے لئے جاتے ہیں تووہ نقل کے لئے بیروزگاروں کی پوری ایک بٹالین اور جنج ساتھ لیکرجاتے ہیں ۔ہمیں اچھی طرح یادہے ۔ہمارے گائوں میں جس کا میٹرک امتحان ہوتا۔ہرپرچے کے لئے وہ اپنے ساتھ تین سے چاردوست کرائے پرضرورلیکرجاتے۔
سرکاری سکولوں اورکالجوں کی یہ کھڑکیاں نہ اس طرح ٹوٹی ہیں اورنہ ہی ان میں لگے جالے مفت میں تارتارہوئے ہیں۔امتحان دینے والے توامتحانی سنٹرمیں ڈیوٹی پرماموراساتذہ اورانسپکٹرزسے پھربھی کچھ شرم کرکے نظریں جھکالیتے ہیں لیکن کرائے پرجانے والے نقل خان سکولزاورکالجزکی کھڑکیوں اوردیواروں پرچڑھتے ہوئے پھرنہ کسی سے ڈرتے ہیں اورنہ ہی کچھ شرم کھاتے ہیں۔اسی وجہ سے توسرکاری سکولوں اورکالجوں میں امتحانات کے موسم میں بوٹی مافیاکوکنٹرول کرنے کے لئے دفعہ 144جیسی دفعات کاسہارالیناپڑتاہے۔اس کے برعکس آپ دینی مدارس میں امتحانات کے طریقہ کاراورطلباء وطالبات کی تربیت وذہن سازی کودیکھیں توآپ حیران رہ جائیں گے۔جوطلبہ امتحان دیتے ہیں وہی امتحانی سنٹرکارخ کرتے ہیں۔جن طلبہ پرجاہل ،پسماندہ ذہن اوران پڑھ جیسے بے سروپاالزامات اور لیبل لگائے جاتے ہیں ان کے امتحان دیتے وقت امتحانی سنٹرزکے اردگردڈسپلن اورخاموشی کایہ حال ہوتاہے کہ امتحانی سنٹرزکے اندرکیا۔۔؟باہربھی کوئی چڑیاپر مارنہیںسکتی۔اسی وجہ سے آج تک آپ نے کہیں یہ نہیں سناہوگاکہ کسی مدرسے یامدارس کے کسی بورڈکے زیراہتمام ہونے والے امتحانات کے لئے کہیں دفعہ 144یاکوئی اوردفعہ لگانے کی کبھی کوئی نوبت آئی۔دینی مدارس کے امتحانات کاتویہ پتہ نہیں چلتاکہ کب شروع ہوئے اورکب ختم ۔۔؟اس کے مقابلے میں ہمارے سکول وکالجزکے امتحانات کایہ حال ہوتاہے کہ جس طرح کسی شہزادے کی شادی ہو۔امتحان سے ایک دومہینے پہلے امتحان امتحان کاڈھول بجاناشروع کردیاجاتاہے۔ اپنے کیا۔۔؟بیگانے بھی نقل کی تیاریوں میں اس طرح مصروف رہتے ہیں کہ جس طرح ان کے باپ کی شادی ہو۔پھروقت آنے پرسلامی بھی سب دیتے ہیں۔تعلیمی نظام اورمعیارکے حوالے سے ہمارے ان ملائوں میں ہزاروں بیماریاں اورخامیاں ہوں گی لیکن بہتر سے بہترامتحانی نظام کی ان کی یہ ایک اچھائی ہماری تمام ترتعلیمی خوبیوں پربھاری بہت بھاری ہے۔تعلیمی میدان میں جدیدسائنس،انٹرنیٹ اورماڈرن لباس کے ذریعے شائدکہ فنی تعلیمی مہارت میں ہم ان ملائوں سے آگے ہوں لیکن امتحانی نظام میں ہم ان تک کسی بھی طرح نہیں پہنچ سکتے۔جتناسرمایہ اورفنڈہم سرکاری تعلیمی اداروں پرخرچ کرتے ہیں ان کاآدھاحصہ بھی اگرہم اخلاص کے ساتھ دینی مدارس پرلگادیں تووہاں سے ہمیں ایسے ایسے ہیرے ملیں کہ دنیاپھران کاتماشاکریں ،اعلیٰ اخلاق، اصول، میرٹ، ایمانداری ،خداخوفی اوردیانت داری ۔۔دینی مدارس میں کس چیزکی کمی ہے۔۔؟
انگریزی دانی پرہماراایمان نہ ہوتاتوواللہ ان دینی مدارس سے اچھے اوربہترادارے ہماری نظرمیں کوئی اورنہ ہوتے مگرافسوس انگریزبننے کے چکرمیں ہم آگے بہت ہی آگے نکل چکے ہیں۔مناسب تربیت اوربہترامتحانی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ہماری نئی نسل پڑھ لکھ کربھی جاہلیت اورتباہی کے آخری حدوں کوچھورہی ہے۔آج ہماری سرکاری تعلیمی اداروں سے ڈبل اورٹرپل ایم اے وبی اے کرنے والوں کوپھراخلاق،اصول اورمیرٹ کاپتہ نہیں ہوتا۔بندرکی طرح دیواریں پھلانگنے والوں کے اشاروں اورکنایوں پرامتحان پاس کرنے والوں کوکیامعلوم کہ اخلاق اوراصول کس بلاکے نام ہیں۔۔؟نقل کاسہارالیکردوسروں کے حق پرڈاکہ مارنے والے پھرمیرٹ کی اہمیت اورقیمت کیاجانیں۔۔؟آج کل ملک میں یکساں تعلیمی نظام ونصاب کی باتیں ہورہی ہیں جواچھی بات ہے لیکن یکساں نصاب اورنظام کے ساتھ ہمیں امتحانی نظام میں دینی مدارس کی تقلیدکرکے نئی نسل کوتباہی وبربادی سے بچاناچاہیئے۔اب بھی اگرہم نے ملاسے کچھ نہیں سیکھاتوپھرتباہی اوربربادی سے ہمیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔کیونکہ ،،ملاکی دوڑاب مسجدتک،، نہیں بلکہ ملادین اوردنیادونوں میںآگے ہم سے بہت آگے نکل چکاہے۔