ہرپتھرکے نیچے ہمارے دشمن اس لئے جنم لے رہے ہیں کہ ہم لگی لپٹی اورتروڑمروڑکے بغیر جو دیوار پر پردے کے پیچھے تحریرہوتاہے۔ وہی ہوبہو ہرکسی کوسنااورپڑھادیتے ہیں۔۔ جبکہ دنیاکے مکینوں کااصول یہ ہے کہ یہ دوسروں کے بارے میں بری سے بری اورسخت سے سخت بات بھی کان کھڑے کرکے بڑے شوق،اطمینان اوردھیان سے سن لیتے ہیں لیکن اپنے بارے میں یہ سوائے اچھائی،بھلائی اور تعریفی کلمات کے اورکوئی ایک لفظ سننااورپڑھنابھی گوارہ نہیں کرتے۔یہاں چورکوبھی اگرکہوکہ صاحب آپ نے چوری کی ہے تووہ بھی پھرناک چڑاکرمرتے دم تک بات کرناچھوڑدیتے ہیں۔ ایمانداروں کا تو پھر مزاج،طبعیت اورعادت چوروں سے بھی زیادہ سخت اورکڑواہے۔حاجی صاحب سے اگردودھ میں پانی ڈالنے یامولوی صاحب سے راستے میں دیوارلگانے کاگلہ بھی کریں تودونوں کانہ صرف بلڈپریشرہائی ہوتاہے بلکہ شوگربھی آئوٹ آف کنٹرول ہوجاتاہے۔۔ہمارے بڑے اکثرکہاکرتے تھے کہ اس دنیامیں چورکوچور،زانی کوزانی ،ڈاکوکوڈاکواورقاتل کواگرقاتل کہوگے توپھرتم مسلمان بھی نہیں رہوگے۔وہی بات ہے۔آج کسی پیر،مرید،ڈاکٹر،انجینئر،سیاستدان اورمولوی صاحب کوکہیںناکہ حضرت آپ نے یہ گناہ کیایایہ کام براکیا۔پھردیکھنا۔۔وہ پیر۔۔ وہ مرید،وہ سیاستدان،وہ ڈاکٹراوروہ مولوی صاحب گناہ اوربرے کام کرنے کے باوجودمسلمان کے مسلمان ہی رہیں گے لیکن ان کی جوابی باتوں اور فتوئوںکی وجہ سے آپ پھرمسلمان کیاانسان بھی نہیں رہیں گے۔۔یہ کام ایک دونہیں کئی بارہمارے اپنے ساتھ بھی ہواہے اورآج بھی لوگوں کے کرم سے ہورہاہے۔کوئی ہمیں مسلمان کہے یاکافر۔۔اس کی ہمیں ذرہ بھی کوئی پرواہ نہیں۔کافری اورمسلمانی کے فیصلے جس پاک ذات نے کرنے ہیں اس نے کافری اورمسلمانی کے ان فتوئوں کوکبھی نہیں دیکھنا۔۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے جرم،گناہ اوربرائی کوکبھی جرم،گناہ اوربرائی سمجھتے نہیں۔دوسروں کی چھوٹی اورمعمولی سی غلطی کوبھی توہم فوراًگناہ کبیرہ کی فہرست میں شامل کرلیتے ہیں لیکن اپنے کبیرہ گناہ بھی پھرہمیں گناہ نہیں لگتے۔ گناہ آخر گناہ اوربرائی آخر برائی ہے۔۔گناہ چاہے کوٹ،پینٹ اورشرٹ والا کرے یاپھرجبہ ودستاروالا۔۔ گناہ دونوں کا گناہ ہی ہے۔۔کسی سیاستدان، ڈاکٹر، ٹیچر، انجینئر اور سرکاری افسرکے گناہ پریہ کہناکہ یہ کام فلاں فلاں نے بھی کیاتھایاپھرکسی مسجداورمدرسے کے طالب علم،قاری یامولوی صاحب کے گناہ کرنے پریہ کہناکہ یہ کام فلاں فلاںیاکسی کوٹ،پینٹ اورشرٹ والے نے بھی کیاتھا۔۔یہ انتہاء درجے کی جاہلیت اورظلم بلکہ ایک بہت بڑاظلم ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ گناہ کوگناہ نہ سمجھنایااس کے جوازکیلئے حیلے بہانے تراشنایہ گناہ سے بھی بدترگناہ ہے۔ ہماری اسی جمع تفریق نے ملک اورمعاشرے کوآج اس نہج یاسٹیج پرپہنچادیاہے کہ جہاں سے اب واپس آنابھی ممکن نہیں۔دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے اورشملے گرانے کے چکرمیں آج ہماری اپنی عزت بھی اب عزت نہیں رہی ہے۔ ہم ہرمسئلے اورمعاملے میں جمع تفریق کے کلیے اگراستعمال نہ کرتے توشائدکہ ہم سب کی عزت بچ جاتی مگرافسوس ایک دوسرے کوگراتے گراتے ہم سب خوداس کھائی میںگرتے گئے جس کھائی سے نکلنااب ہمارے لئے ہرگزآسان نہیں۔
ریاست کے اندرریاست اورگھرکے اندرگھربنانے کاغالباًپھریہی انجام ہوتاہے۔پاکستان کی بنیادوں میں حضرت قائداعظم محمدعلی جناح ، علامہ محمداقبال،مولاناظفرعلی خان اورعلامہ شبیراحمدعثمانی سمیت جن بزرگوںاوررہنمائوں کاخون شامل ہے وہ بزرگ اوررہنماء کون تھے۔۔؟ حضرت قائداعظم محمدعلی جناح جس طرح کوٹ،پینٹ اورشرٹ والوں کے لیڈرتھے اورہے کیااسی طرح حضرت قائداعظم محمدعلی جناح پگڑی،ٹوپی،جبہ اوردستاروالوں کے قائدنہیں تھے یاآج نہیں ہیں۔۔؟ حضرت قائداعظم اورہمارے بزرگوں نے تویہ ملک اس لئے بنایاتھاکہ پگڑی،ٹوپی،جبہ اوردستاروالے ہوں یاکوٹ،پینٹ اورشرٹ پہننے والے سب کے سب یہاں ایک ساتھ رہ کراسلامی احکامات وتعلیمات کے مطابق آزادی کے ساتھ زندگی گزارسکیں۔پھراس ملک میں رہنے والوں کی اکثریت کیاآج بھی مسلمان نہیں۔۔؟ایک کلمہ،ایک دین اورایک ملک۔پھرہمارے درمیان یہ جمع اورتفریق کیوں۔؟ کیاہم میں ہرشخص خود ملا اور مسٹر نہیں۔؟ کیاجس گھرمیں پگڑی،داڑھی،کرتااورجبہ ودستاروالے ہوتے ہیں ان گھروں میں کوٹ،پینٹ اور شرٹ والے نہیں ہوتے۔؟کیاجس گھرمیں ٹیچر،ڈاکٹر،انجینئراورسیاستدان ہوں اس گھرمیں مولوی صاحب، قاری صاحب،حافظ صاحب اورمفتی صاحب نہیں ہوتے۔؟لوگ شوبزسے تعلق رکھنے والے فنکاروں،گلوکاروں ،اداکاروں اوردین سے منسلک حافظ صاحب،قاری صاحب اورمفتی صاحب کوآپس میں آگ وپانی سمجھتے ہیں۔بلاکسی شک وشبہ کے آگ اورپانی کاتوایک جگہ اکٹھ اورملاپ ناممکن ہے لیکن ہم نے اپنی ان گنہگاروں آنکھوں سے اس ملک کے اندرایک دونہیں کئی فنکاروں،گلوکاروں اور اداکاروں کے گھروں میں انہی کے بچوں میں حافظ بھی دیکھے ہیں،قاری بھی اورمفتی بھی۔آج بھی اس ملک میں فنکاروں،گلوکاروں اوراداکاروں کے ایسے کئی گھرانے ہیں جن میں ان کے اپنے بچے حافظ بھی ہیں،قاری بھی اورمفتی بھی۔
اسی طرح سکول،کالج،یونیورسٹیزاورمساجدومدارس میں ایک ہی پنچ اورصف پر کوٹ،پینٹ اورشرٹ والوں کے بچے بھی بیٹھ کرتعلیم حاصل کرتے ہیں اوراسی بنچ اورصف پران کے ساتھ داڑھی، پگڑی،ٹوپی،جبہ اوردستاروالے مولوی صاحبان کے بچے بھی بیٹھ کرتعلیم حاصل کرتے ہیں۔اس ملک میں ایساکوئی سکول،ایساکوئی کالج اورایسی کوئی یونیورسٹی نہیں جہاں مولوی حضرات کے بچے تعلیم حاصل نہ کررہے ہوں۔اسی طرح اس مٹی پرایساکوئی مدرسہ اورایسی کوئی مسجدنہیں جہاں کوٹ،پینٹ اورشرٹ پہننے والے پروفیسرز،ڈاکٹرز،ٹیچرز،انجینئرزاورسیاستدانوں کے بچے زیورتعلیم سے آراستہ نہ ہورہے ہوں۔سب سے بڑھ کرمسجدکی ایک ہی صف میں جہاں حافظ صاحب،قاری صاحب، مولانا صاحب اورمفتی صاحب کھڑے ہوکرنمازاداکرتے ہیں اسی ہی صف میں ٹائی،پینٹ،کوٹ اورشرٹ میں ملبوس پروفیسر،ڈاکٹر،ٹیچر،انجینئراورسیاستدان بھی اس کے کندھے کے ساتھ کندھااورٹخنوں کے ساتھ ٹخنا ملا کر اللہ کو یادکر رہا ہوتا ہے۔حق اورسچ تویہ ہے کہ اس ملک میں نہ پہلے ملامسٹرسے الگ تھا اور نہ ہی آج مسٹرملاسے الگ ہے۔ملابھی اپنا،مسٹربھی اپنا،سکول ،کالج ،یونیورسٹیاں بھی اپنی اورمسجدومدرسے بھی اپنے۔جب سکول سے لیکرمسجدتک اوریونیورسٹی سے لیکرمدرسے تک سب کچھ اپناہے توپھرملاومسٹراورداڑھی وپگڑی اورٹائی وپینٹ شرٹ کی یہ تفریق کیوں۔؟
سکول ،کالج اوریونیورسٹیوں والے نہ گناہوں سے پاک ہیں اورنہ ہی مساجدومدارس والے کوئی فرشتے۔گناہ ملاسے بھی ہوسکتاہے اورجرم مسٹرسے بھی۔ جس سے بھی کوئی گناہ اورجرم سرزدہوچاہے وہ ملاہویامسٹر۔وہ پھررب کے ہاں مجرم اورگناہ گارہے۔ ہمیں ملااورمسٹرکی تفریق میں پڑکرایک دوسرے کے گناہوں اورجرائم پرتالیاں بجانے کی بجائے ملکرگناہ گاراورمجرم پرپتھراورلاٹھیاں برسانی چاہیئں۔ماناکہ ملابھی ہمارااورمسٹربھی ہمارالیکن ایک بات یادرکھیں کہ مجرم چاہے مسٹرہو یاگناہ گارکوئی ملاوہ پھرہرگزہرگزہمارانہیں ہوسکتا۔ اس لئے جرم اورگناہ کوئی مفتی عزیزالرحمن کریں یاکوئی مسٹروپروفیسر۔ہرایک کوالٹالٹکاناچاہیئے۔ جب تک ہم ملاومسٹرکی تفریق سے نکل کرگناہ گارملائوں اورجرائم پیشہ مسٹروں کوانجام تک نہیں پہنچاتے اس وقت تک دنیاکے سامنے ہم سب کی عزت یونہی نیلام ہوتی رہے گی۔ یہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے کہ ہم اپنی عزت بچاتے ہیں یاگناہ گارملااوربدکارمسٹرکو۔