325

غلامی کا جدید تصور اور بندگیِ رب۔ Modern concept of slavery and Worship the Lord

عربی میں ”عبد“ غلام کو کہا جاتا ہے۔ عبد کے لیے عام طور پر بندہ کا لفظ بھی بطور مترادف استعمال کیا جاتا ہے۔اسی طرح لفظ بندگی عبادت کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ بندہ یا بندگی کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لفظِ ”عبد“ کا مفہوم سمجھ لیا جائے۔ غلامی کا اصل مفہوم سمجھانے کے لیے زمانہِ قدیم میں رائج غلامی کے تصور سے مثال اخذ کرنا زیادہ مفید اور آسان رہے گا۔


زمانہِ قدیم میں غلام ہمہ جہت، ہر لحظہ، ہر گھڑی اپنے مالک یا آقا کا مطیعِ فرمان رہنے کا پابند ہوا کرتا تھا۔ مالک یا آقا کو اپنے غلام کی جان پر بھی حق حاصل ہوتا تھا۔ لہٰذا تاریخ میں ایسی کئی نظیریں ملتی ہیں کہ جب مالک نے اپنے غلام کو انگاروں پر بھی لِٹایا، تپتی ریت پر لِٹا کر اوپر پتھر رکھا اور کسی جنگ میں اپنی جان کے متبادل کے طور پر اپنے غلام کو بھیجا۔ لیکن غلام کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا کہ اپنے مالک کی حکم عدولی کرنے کی جسارت کر سکے۔ گویا غلام سراپا اطاعت ہوا کرتا تھا۔ لیکن اس غلامی یا اطاعت کے پیچھے اصل کارفرما قوت ”جبر“ کی تھی۔

کوئی بھی شخص ایسی مجبورِ محض غلامی کو دلی آمادگی کے ساتھ قبول نہیں کر سکتا۔ یہ انسان کے جذبہِ حریت اور فطرت کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر نوعِ انسانی نے اپنے عمرانی ارتقاء کی منزلیں طے کرتے ہوۓ غلامی کے اس عریاں تصور کے خلاف بغاوت کر دی۔ لیکن مادہ پرست مفاد یافتہ طبقے نے عمرانی ارتقاء کی نبض کو پرکھتے ہوۓ  غلامی کے تصور کو بھی جدیدیت کا ویسا ہی خول چڑھایا جیسا اس سے پہلے تصورِ حاکمیت پر چڑھایا تھا۔ جہاں حاکمیت کو ایک فرد سے لے کر افراد میں تولہ تولہ بانٹ دیا، بالکل ایسے ہی فرد کی غلامی کو ایک آقا کی دسترس سے نکال کر بہت سے آقاؤں کی دسترس میں دے دیا۔ اس طرح فرد کو شعوری سطح پر یہ احساس بھی نہیں ہونے پاتا کہ وہ کسی طرح سے بھی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے۔

عمرانی ارتقاء نے غلامی کے پرانے تصور کو متروک کر کے ایسے ایسے نئے اور پیچیدہ تصوراتِ غلامی کو وجود دیا ہے کہ عام انسان محسوس کیے بغیر غلامی کے طوق گلے میں لٹکائے پھرتا ہے۔ اگرچہ اپنی طبیعت پر غلامی کا بار اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بے چینی محسوس کرتا ہے لیکن شعوری سطح پر اس کا ادراک نہ ہونے کی وجہ سے کسی ردِعمل یا بغاوت کا عَلم اٹھانے سے قاصر رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کسی ملازم کو کامیابی کا یہ تصور قولِ زریں کے طور پر یاد کروایا جاتا ہے کہ اپنے باس (Boss) کو ہمیشہ درست کہو یا سمجھو تو کیا یہ غلامی کا تصور نہیں؟ جدید مینجمنٹ سائنسز  میں کیریئر ڈویلپمنٹ (Career Development)، ہیومن ریسورس مینجمنٹ (Human Resource Management)  یا آرگنائزیشنل سائیکالوجی (Organizational  Psychology) کے نام پر ایک کامیاب ملازم بننے یا کسی ملازم سے اپنی مرضی کے تحت کام لینے کے جو طریقے نصاب کی سطح پر طالبعلموں کو یاد کروائے جاتے ہیں کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ان کا مقصود آزاد نہیں بلکہ تعلیم یافتہ غلام پیدا کرنا ہے؟

عہدِ جدید میں ٹیکنالوجی کی ترقی سے کتنی ہی آسائیشیں ہیں جو ہماری زندگی کی بنیادی ضروریات میں شمار ہونے لگی ہیں۔ اور ان آسائشات کے لوازمات پورے کرنے کے چکر میں انسان مشین کی طرح کام کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ یہ آسائشات اتنی دیدہ زیب اور پرکشش ہیں کہ انسانوں کی عظیم اکثریت کی زندگی کا مقصد ہی ان آسائشات  کا حصول بن کر رہ گیا ہے۔ نتیجتاً انسان نِرا ڈھور ڈنگر بن کر رہ گیا ہے۔ انسان اپنی نفسانی خواہشات کی تسکین اور تشفی کو ہی زندگی کا مقصد و محور بنا بیٹھا ہے۔ گویا ایک جانب کسی ادارے میں آٹھ گھنٹے کی غلامی کر کے فارغ ہوتا ہے تو اپنے نفس کی غلامی میں جُت جاتا ہے۔ قرآن نے نفس کی غلامی پر بہت خوبصورت انداز میں طنز کیا ہے۔ اپنے نبیؐ سے مخاطب ہوتے ہوۓ اللٰہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ ”اے نبیؐ کیا آپ نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنے نفس کو اپنا اِلٰہ بنایا ہوا ہے؟“

اسی طرح کتنے ہی معاشرتی روایات اور اقدار کے بندھن ہیں جن میں فرد خود کو مجبور اور بے بس پاتا ہے۔ اگر آپ ان معاشرتی اقدار اور روایات کی پاسداری سے انکار کریں تو معاشرہ خود سے آپ کو کاٹ پھینکتا ہے۔ اسی طرح معاشرتی اور سماجی رشتے ایک اور بیڑی ہیں جو انسان کی آزاد منشا کو اپنے اندر جکڑے ہوۓ ہیں۔ حق بات کے لیے ان رشتوں اور سماجی اقدار کی بیڑیوں کو اتار پھینکنے والا کوئی کوئی ہی ہوتا ہے، ورنہ انسانوں کی عظیم اکثریت جذبات اور قبولیت کے خوبصورت غلاف میں لپٹی غلامی کی ان زنجیروں کو پہننے پر مجبور ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ غالب طبقے نے مغلوب طبقے سے ہمیشہ غلامی ہی کا تقاضہ کیا ہے۔ اور غلامی بھی ایسی کہ جس میں طاقتور کا فائدہ اور مغلوب کا استحصال ہی ہوا ہے۔ کمزور غلامی کے اس طوق کو گلے میں ڈالنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ غلامی کے اس تصور میں کمزور غلام خود کو کامل اطاعت پر مجبور پاتا ہے۔

اس کے برعکس اللٰہ بھی اپنے بندوں سے غلامی ہی چاہتا ہے لیکن وہ غلامی جبر پر مبنی نہیں۔ سورۃ الذاریات میں ارشاد ہوا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اپنی بندگی یا غلامی کے لیے کیا ہے۔ گویا زندگی کا مقصود ہی غلامی قرار پایا۔ لیکن جو غلامی اللٰہ کو درکار ہے اس غلامی کے تصور اور اوپر بیان کیے گئے تصورِ غلامی میں جوہری اور بنیادی فرق یہ ہے کہ اللٰہ جس اطاعت اور فرمانبرداری کا طالب ہے وہ ایک تو اختیاری ہے۔ یعنی یہ فیصلہ فرد نے خود کرنا ہے کہ اس نے اللٰہ کا بندہ بننا ہے یا کسی اور قوت کا۔ دوسری بات یہ کہ اللٰہ کو محض اطاعت بھی مقصود و درکار نہیں۔ اللٰہ کا تقاضا یا ڈیمانڈ یہ ہے کہ اگر تمہیں اس کی بندگی اختیار کرنی ہے تو تمہاری اطاعت یا غلامی مجبوری نہیں بلکہ شوق اور محبت کے جذبے کے تابع ہونا چاہیئے۔ اسی تصورِ بندگی کو اقبال نے بہت خوبصورت اسلوب میں یوں بیان کیا ہے کہ


؎ شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام،
میرا قیام بھی حجاب! میرا سجود بھی حجاب!

گویا بندگیِ رب میں اطاعت کے پیچھے کارفرما قوتِ محرکہ محبت کا جذبہ ہو تو یہ وہ بندگی ہے جو مقصود و مطلوب ہے۔ مزید براں یہ بندگی جزوی نہیں بلکہ کلی ہونا چاہیئے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا کہ اے ایمان والو اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاٶ۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ غلام تو ہر لحظہ، ہر گھڑی اپنے آقا کا مطیعِ فرمان ہوتا ہے، اسی طرح بندگیِ رب کا بھی یہی تقاضا ہے کہ انسان ہر لحظہ، ہر گھڑی خود کو شرشاری اور محبت کے جذبے میں مخمور اللٰہ کا فرمانبردار اور مطیع پائے۔ چاہے فرد کی انفرادی زندگی کا گوشہ ہو یا اجتماعی، وہ اللٰہ کے حکم اور اُس کی رضا کے تابع ہونا چاہیئے۔

قرآن میں ایک بہت پیاری اور معنی خیز تمثیل بیان ہوئی ہے کہ وہ شخص جس کا ایک مالک ہو اُس شخص کے برابر ہو سکتا ہے جس کے بہت سے مالک ہوں؟ جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے کہ جدید تصورِ غلامی یہ ہے کہ فرد کی غلامی کو ڈیپارٹمنٹلائز کر دیا جاۓ ، یا یوں کہیے کہ اُس کی غلامی کو ایک کی بجائے بہت سے آقاؤں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، تو قرآن کی اس آیت کا مفہوم پہلے سے زیادہ کھل کر اور نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ اب یہ فرد کا فیصلہ ہے کہ چاہے وہ بندگیِ رب اختیار کر کے یک رُخی زندگی کا انتخاب کرے، چاہے اپنے نفس کی بندگی اختیار کرے یا بہت سے مادی الٰہ اپنے سر پر سوار کر لے۔

جدید نفسیات اور عمرانیات یہ بتاتی ہیں کہ انسان انفرادی یا اجتماعی سطح پر تضاد کو زیادہ دیر تک برداشت نہیں کر سکتا۔ سکون اور اطمینان انسان کے بنیادی فطری تقاضے ہیں۔ جہاں بھی  ایک سے زیادہ اتھارٹیز (Authorities) ہوں وہاں  پیدا ہونے والا بیرونی انتشار فرد کے اندرونی خلفشار پر منتج ہوتا ہے۔ لہٰذا فرد کے سکون اور اطمینان کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی واحد قوت کی اطاعت قبول کرے۔    

( تعارف : لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں