میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اسی اور نوے کی دہائی کا لندن اس شہر میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے لئے آج کے لندن سے کتنا مختلف تھا۔ اُن دو دہائیوں میں یہ شہراوور سیز پاکستانیوں کی ادبی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا اُس زمانے کی رونق اور گہما گہمی کو آج بھی خوشگوار حوالے کے طور پریاد کیا جاتا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اب برطانوی دارلحکومت میں پاکستانی تارکین وطن کی سرگرمیاں ختم ہوگئی ہیں۔ ادبی اور سیاسی گہما گہمی اب بھی جاری ہے لیکن ان کی ترجیحات یکسر بدل گئی ہیں۔90 کی دہائی میں جب کوئی ایشیائی یا پاکستانی کسی بارو کا میئر یا لارڈ میئر منتخب ہوتا تھا تو پورے برطانیہ میں مقیم ہماری کمیونٹی میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور ایسے منتخب نمائندوں کی بھر پور ی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے جب مہر خان 1994 میں لندن بارو آف والتھم فاریسٹ کی پہلی پاکستانی خاتون میئر منتخب ہوئیں تو پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں آباداوورسیز پاکستانیوں کے سرفخرسے بلند ہوگئے اورہر شہر سے اُن کو مبارکباد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ مہر خان ایک بہت ہی شاندار شخصیت اور حوصلہ مند خاتون تھیں جو دسمبر 2024 کو اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ ایسٹ لندن اور بالخصوص والتھم فاریسٹ کی کمیونٹی اُن کی سماجی اور سیاسی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ مہر خان نے بہت بھر پور زندگی گزاری،1966 میں شادی کے بعد وہ کراچی سے لندن آئیں دیگر ایشیائی اور مسلمان خواتین کی طرح انہیں بھی ایک اجنبی معاشرے اور ماحول میں ایڈ جسٹ ہونے کے لئے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری بلکہ اپنی کمیونٹی کی دیگر خواتین کی آسانی اوررہنمائی کے لئے مسلم و یمینز ویلفیئر ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔مہر خان نے اس تنظیم کو فعال اور مفید بنانے کے لئے بہت خلوص اور محنت سے کام کیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں خواتین کے لئے ترقی اور تربیت کی راہیں ہموار ہوئیں اور پھر ایک وقت آیا کہ اُن کی تنظیم کو اعلیٰ کار کردگی پر ملکہ برطانیہ کی طرف سے گولڈن جوبلی ایوارڈ کا حق دارقرار د یا گیا۔ اس اعزاز کے لئے مسلم ویمنز ویلفیئر ایسوسی ایشن کا انتخاب پورے ملک کی چار سو نامزد تنظیموں میں سے کیا گیا تھا۔مہر خان کہتی تھیں کہ”عموماً ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے میرے معاملے میں یہ برعکس ہے یعنی میری ہر کامیابی کے پیچھے میرے شوہر ابرار خان کی بھر پور حوصلہ افزائی شامل رہی ہے، میں جب ڈپٹی میئر اور پھر میئر منتخب ہوئی تو ہمارے اپنے لوگوں نے میری مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا مگر میرے شریک حیات ابرار خان نے ہر مرحلے پر مجھے حوصلہ دیا اور میری بھرپور حمایت کی جس کی وجہ سے کبھی میرے قدم نہیں ڈگمگائے“۔اپنی میئرشپ کے دوران مہر خان انگریز کونسلرزاور کونسل کے افسروں کا ایک وفد لے کر پاکستان گئیں جہاں انہیں پاکستان کے مختلف شہروں کے دورے کر ائے گئے۔ اس وفد کی ملک بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر جس طرح پذیرائی اور آؤ بھگت ہوئی اس کی وجہ سے وفد کے انگریز اراکین نہ صرف حیران ہوئے بلکہ پاکستان کے بارے میں اُن کے تاثرات اور خیالات بہت ہی مثبت اور خوش گوار ہو گئے۔مہر خان نے اپنی تنظیم کے پلیٹ فارم سے ہرممکن کوشش کی کہ ہماری کمیونٹی کی خواتین تعلم کے حصول اور ہنر سیکھنے کے معاملے میں دیگر کمیونٹیز کی عورتوں سے پیچھے نہ رہیں۔ مقامی لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر زندگی نہ گزاریں، برطانوی اقدار اور یہاں کے سیاسی اور سماجی نظام کے بارے میں آگاہی حاصل کریں، صرف سرکاری بینیفٹس کے حصول کو اپنی زندگی کی ترجیح نہ بنائیں تاکہ اُن کی آئندہ نسلیں ترقی کر سکیں۔ برطانیہ اور خاص طور پر ایسٹ لندن کی مسلم خواتین کی فلاح و بہبود مہر خان کی زندگی کا مشن تھا اس مشن کی راہ میں کئی رکاوٹیں بھی آئیں جن کی وجہ سے انہیں لیبر پارٹی کو چھوڑ کر لبرل ڈیمو کریٹک پارٹی میں شمولیت اختیار کرنا پڑی مگر وہ ثابت قدم رہیں اور اپنے مشن کی تکمیل کے لئے کسی مصلحت کو درخور اعتنا نہ سمجھا۔ اپنے ایک جوان بیٹے کی وفات پروہ شدید صدمے کے اثر میں رہیں مگر پھر رفتہ رفتہ وہ اس غم کی گرفت سے نکل آئیں اور انہوں نے کراچی میں اپنے اس مرحوم بیٹے کے نام سے اظہر اقر اسکول قائم کیا جہاں غریب اور مستحق بچوں کو مفت تعلیم و تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے۔ اس سکول کو کامیابی سے چلانا بھی مہر خان کی زندگی کا دوسرا بڑا مشن تھا۔ مہر خان ان معدودے چند خواتین میں سے ایک تھیں جنہوں نے کسی ستائش، شہرت اور صلے کی تمنا کے بغیر اپنے مشن کو جاری رکھا اورہر طرح کی مخالفتوں کی پروا کئے بغیرکامیابیوں کی منازل طے کرتی چلی گئیں۔ وہ برٹش پاکستانی خواتین کے لئے مشعل راہ تھیں وہ کسی بھوکے کو ہر روز مچھلی پکڑکر دینے کی بجائے اُسے مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھانے پر یقین رکھتی تھیں۔ میری اُن سے آخری ملاقات وفات سے چند ماہ پہلے ایک تقریب میں ہوئی تھی میں نے محسوس کیا کہ وہ اپنے شوہرابرار خان کی وفات کے بعد پہلے کی طرح مستعد نہیں ہیں ایک ملال کی کیفیت اُن کے چہرے پر نمایاں تھی جو شریک سفر اُن کی کامیابیوں کا حوالہ تھا اُن کی ثابت قدمی کا جواز تھا اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد کسی تنہا مسافر پر کیا گزرتی ہے مہر خان کا چہرہ اس کی گواہی دے رہا تھا۔ لندن میں دو مہر خان ہوا کرتی تھیں جو ہماری پاکستانی کمیونٹی کی جانی پہچانی شخصیات تھیں دوسری مہرخان ریڈیو پریز نٹر تھیں۔ رمضان المبارک کی خصوصی ٹرانسمشن میں جن کی منفرد اور شاندار آواز کے ہزاروں لوگ مداح تھے اب یہ دونوں مہر آسمانوں کی وسعتوں میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ یہ زندگی بھی کیا عجب چیز ہے وہ لوگ جو اس دنیا کی رونقوں اور گہما گہمی کا حصہ ہوتے ہیں جن کے بغیر ہماری محفلیں اور مجلسیں ادھوری ہوتی ہے جب وہ اپنے خالق حقیقی کی طرف لوٹ جاتے ہیں تو ہم رفتہ رفتہ اُنہیں ایسے فراموش کر دیتے ہیں کہ جیسے وہ کبھی ہمارے درمیان تھے ہی نہیں۔ کبھی کبھی جب ہمیں اُن کی یاد آتی ہے تو دل میں ایک ہوک سی ضرور اٹھتی ہے اور پھر گردش ماہ و سال اکثر لوگوں کو اس یاد سے بھی بے نیاز کر دیتی ہے مدتیں گزرنے پر بھی ہمیں اُن کا خیال نہیں آتا عزیز حامد مدنی نے کہا تھا
؎ وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے
مگر ایسے لوگ جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی ایسا کار خیر کیا ہو یا کوئی ایسی یادگار چھوڑی ہو جو اُن کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ضرورت مندوں کی فلاح و بہبود کا سبب بنی رہی تو اُن ہستیوں کو بھلایا اور فراموش نہیں کیا جاسکتا اُن کے اچھے کام ہمیشہ اُن کی یاد دلاتے رہتے ہیں۔ مہر خان بھی اُن ہستیوں میں سے تھی جن کو اُن کے اچھے کاموں اور لوگوں کی بھلائی کے لئے کی جانے والی جستجو کی وجہ سے تا دیر یاد رکھا جائے گا جب تک مسلم و یمنز ویلفیئر ایسوسی ایشن اورا ظہر اقراسکول اپنے مشن کو جاری رکھیں گے اس وقت تک مہر خان کا نام لوگوں کے حافظے سے محو نہیں ہوگا۔ خالق کا ئنات ہم سب کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا کام کرنے کی توفیق ضرور عطا کرے کہ ہمارے بعد بھی ہمارے لگائے ہوئے درخت سے لوگوں کو پھل اور چھاؤں میسر آتی رہے۔

٭٭٭