808

ایمانداری کے بغیر بےمعنی آزادی

گزشتہ روز انڈین وزیراعظم مودی نے ملک میں پہلی بغیر ڈرائیور والی میٹرو ٹرین کا افتتاح کردیا ہے جو ایک 37 کلومیٹر طویل روٹ پر چلے گی اس روٹ پر 2200 مسافر بیک وقت سفر کرسکیں گے اسکی رفتار 95 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوگی اور اگر پٹری پر کہیں کوئی چیز گرے گی تو یہ ٹرین خودبخود 50 میٹر پہلے ہی رک جائے گی۔ یہ ٹرین مکمل آٹومیٹک ہے کمپیوٹر کی مدد سے چلتی ہے لہذا اس میں انسانی غلطی کا امکان کم ترین سطح پر ہے۔ 57 کلومیٹر طویل ایک اور روٹ پر بھی جلد ایسی ٹرین چلنے والی ہے۔

انڈیا میں اس وقت 18 مختلف شہروں میں میٹرو ٹرینیں چل رہی ہیں اور ان میں 85 لاکھ لوگ روزانہ سفر کرتے ہیں۔ انڈین حکومت 2025 تک مزید 7 شہروں میں بھی میٹرو ٹرینیں چلا دے گی، جن شہروں کے ساتھ سمندر دریا یا بڑی نہریں لگتی ہیں وہاں واٹر ٹرینیں چلانے پر بھی کام جاری ہے۔ انڈین دارلحکومت دہلی میں روزانہ لاکھوں لوگ اپنی گاڑیوں کو ٹرین سٹیشن پارکنگ لاٹس میں کھڑی کر کے میٹر ٹرینوں کے ذریعے دفاتر جارہے ہیں جس سے وہ نہ صرف ٹریفک رش سے بچ کر وقت پر دفاتر پہنچ جاتے ہیں بلکہ پٹرول اور گاڑیوں کی مرمت کی مد میں ہزاروں روپے بچت بھی کرلیتے ہیں۔

پاکستان انڈیا کے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں اب بھی انگریز دور سے بچھی ہوئی ریلوے لائینیں ہی چل رہی ہیں وقتاً فوقتاً انہی روٹس کو مرمت کرکے قابل استعمال بنایا جاتا رہا ہے، ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی حب کراچی میں لوگ پرانی ناکارہ بسوں ویگنوں میں ذلیل ہو کر روزانہ کئی گھنٹے ضائع کر کے دفاتر آتے جاتے ہیں، اب سندھ حکومت پرانی کھٹارا بسیں جو پہلے ہی اپنی عمر گزار کر سکریپ کی حالت میں کھڑی ہیں انکو دوبارہ رینوویٹ کر کے کراچی کی عوام کو ایک نیا لالی پاپ دینے جارہی ہے، پنجاب کے شہروں لاہور، ملتان، راولپنڈی اور پشاور کے پی کے میں البتہ میٹرو بسیں چل رہی ہیں لیکن یہ آبادی اور شہریوں کی ضروریات کیلئے ناکافی ہیں۔

انڈیا پاکستان دونوں اکٹھے انگریزوں سے آزاد ہوئے تھے، شاید نہ آزاد ہوتے تو لوگوں کی زندگیوں میں زیادہ سکون ہونا تھا اور انڈیا شاید ہانگ کانگ کی طرح ڈویلپ بھی ہوجانا تھا لیکن ہمارے لوگوں کو آزادی کا شوق تھا انگریزوں سے آزادی مل گئی لیکن بدقسمتی سے کرپٹ اور بےایمان سیاستدانوں کی غلامی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے، انڈیا میں سیاستدان جہاں ایک طرف بےایمانی کرتے ہیں وہی دوسری طرف اپنے ملک کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچ لیتے ہیں لیکن پیارے پاکستان میں بدقسمتی سے سیاستدان صرف اپنے پیٹ کے بارے میں ہی سوچتے ہیں ملک جائے بھاڑ میں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دوسری طرف عوام کی ایک بڑی اکثریت خود بےایمان ہے، ریڑھی والے سے لیکر ملکی سیاستدان، بیوروکریٹس، ججز، پولیس افسران اور فوجی جرنیل سمیت زیادہ تر لوگ کرپٹ اور بےایمان ہیں، معاشرے میں ایمانداری کی ترغیب دینے والے مذہبی علماء اور مولوی حضرات خود بےایمانی اور فرقہ ورانہ نفرت کے گڑھوں میں گرے ہوئے ہیں ایسی صورت میں ایماندار اور ملکی مفاد میں سوچنے والی حکومت کہاں سے آسکتی ہے اسکے لئے پہلے عوام کو خود ایماندار ہونا پڑے گا، جھوٹ ملاوٹ اور بےایمانی سے تائب ہونا پڑے گا، جب پورا معاشرہ ایماندار ہو جائے گا تو یقیناً حکومت، فوج، پولیس، عدلیہ اور بیوروکریسی بھی ایماندار ہوجائے گی کیونکہ یہ سب لوگ اسی معاشرے کا حصہ ہیں کہیں باہر دوسرے ممالک سے امپورٹ ہوکر نہیں آئے ہیں، خود کو بدلیں پورا معاشرہ بدل جائے گا۔

#طارق_محمود