ڈاکٹروں کے سامنے تو مریضوں کو دردسے کراہتے اورتڑپتے ہوئے ہم نے باربار دیکھا لیکن زندگی میں یہ غالباًوہ پہلے بدقسمت ڈاکٹر تھے جنہیں ہم پہلی باراپنی ان گناہ گارآنکھوں کے سامنے دردسے کراہتے اورتڑپتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔یہ کوئی عام ڈاکٹرنہیں تھے بلکہ ہزارہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈی ایم ایس سمیت دیگرکئی اہم عہدوں اورپوسٹوں پرخدمات سرانجام دینے والے ڈاکٹر سردار شکیل صاحب تھے جنہیں آج بھی درجنوں اورسینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ درددل اورخدمت انسانیت کی وجہ سے نہ صرف جانتے ہیں بلکہ ہرنمازکے بعددعائیں بھی دیتے ہیں۔ اپنی بے باکی اوراصول پسندی کے باعث ڈاکٹرشکیل توکسی عہدے اورپوسٹ پرکبھی زیادہ دیرتک نہیں رہ سکے لیکن جس جس عہدے اورپوسٹ پرجہاں جہاں بھی رہے غریبوں اورمظلوموں کے دل جیتنے میں کامیاب ضرور ہوئے۔
اللہ لمبی عمردیں آج بھی بے شمارغریبوں ولاچاروں کے زخموں پرمرہم رکھنے کاسبب بن رہے ہیں۔ڈاکٹرشکیل صاحب کو کمرپرہاتھ رکھے دردسے کراہتے ہوئے جب ہم نے دیکھاتوقریب بیٹھے ندیم خان نے ازراہ مذاق پوچھاکہ ڈاکٹرصاحب خیریت توہے۔۔؟آج کچھ ٹیڑھے ٹیڑھے لگ رہے ہیں آپ۔ڈاکٹرصاحب نے دردسے کراہتے اورآہ بھرتے ہوئے دھیمی سی آوازمیں کہا۔جدون صاحب۔کمرمیں کوئی دردنکلاہے جس نے صبح سے پریشان اورتنگ کیاہواہے۔ندیم جوافسروں کی جدیدمالش و پالش میں کافی مہارت رکھتے ہیں بولے۔ڈاکٹرصاحب آپ بیٹھیں میں منظورپاجی کولاتاہوں۔تھوڑی دیرمیں وہ منظورپاجی کولیکرآئے۔ اس نے جب ڈاکٹرصاحب کوآہیں بھرتے ہوئے دیکھاتوکہاکہ ڈاکٹرصاحب آپ پیروں کے بل زمین پرذرہ بیٹھیں میں دم ڈالتاہوں۔زمین پربیٹھتے ہوئے تھوڑاساٹائم گزراہوگاکہ ڈاکٹرصاحب کہناشروع ہوگئے ۔پاجی جلدی جلدی کام مکائو۔مجھ سے اس طرح اورنہیں بیٹھاجاتا۔ ڈاکٹرصاحب کی یہ بات جب ہمارے کانوں میں پڑی توہمیں ڈاکٹرصاحب کے ہی ہسپتال میں پندرہ روزسے بیڈپربے جان وساکت پڑے بٹگرام کے رہائشی زوتاخان بابایادآگئے۔
زوتاخان بابامیرے گائوں کے رہائشی ہیں اوران کوپندرہ روزقبل بخارکی شکایت پراس کے بچے ہاتھ سے پکڑکرہسپتال لائے تھے۔اپنے پائوں پرہسپتال آنے والے زوتاخان باباکی ڈاکٹروں کے ہاتھوں اب یہ حالت ہے کہ وہ نہ زندہ ہیں اورنہ مردہ۔ پندرہ دن کے اندروہ کونسے تجربے ہیں جوڈاکٹروں نے اس باباپرنہیں کئے،وارڈمیں جس ڈاکٹرکابھی بس چلااس نے بدقسمت باباپراپناکوئی نہ کوئی تجربہ ضرورکیا۔ماناکہ زندگی وموت،بیماری اورشفاء اللہ کے ہاتھ میں ہے۔اللہ کاحکم نہ ہوتودنیاکاکوئی بھی حکیم اوربڑے سے بڑاڈاکٹربھی کسی کوکوئی شفاء نہیں دے سکتالیکن ڈاکٹروں کوکم ازکم مریض کوتجربہ گاہ تونہیں بناناچاہئے۔ڈاکٹرشکیل جب دم سے فارغ ہوئے توہم نے کہاسرجی گستاخی معاف اگربرانہ مانیں توایک بات پوچھیں ۔
ڈاکٹرصاحب بڑے دل کے آدمی اورہنس مکھ انسان ہیں فوراًبولے۔جی جی جوزوی صاحب پوچھیں کیاپوچھناہے۔میں نے کہاڈاکٹرصاحب آپ سے علاج کی خاطردومنٹ کیلئے اس طرح زمین پر بیٹھا نہیں گیااورآپ کی برادری کے لوگ تو ہفتوں اورمہینوں تک غریبوں، لاچاروں، بے کسوں اوربے وسوں کوعلاج کے نام پرنہ صرف ہسپتالوں میں بٹھاتے ہیں بلکہ اکثرکوزمین پرلٹاتے بھی ہیں۔ایک چھوٹے سے آپریشن کیلئے کھٹمل،مچھر،چوہے وبلیوں جیسی سہولیات سے آراستہ وپیراستہ ہسپتالوں وبیڈزپرقیدیوں کی طرح دن اورہفتے نہیں مہینوں پرمہینے گزارنے والے مریض کیاانسان نہیں ہوتے۔۔؟ آپ کی طرح ان کوبھی کیازمین پربیٹھنے اور بیڈز پرمسلسل لیٹنے میں تکلیف ،دقت اورپریشانی نہیں ہوگی۔۔؟ ہماری گستاخانہ باتیں سن کرڈاکٹرصاحب نے پہلے ایک ٹھنڈی اورلمبی سی آہ بھری پھرگویاہوئے۔ جوزوی صاحب ۔مانتاہوں کہ ڈاکٹروں کی برادری میری ہے میں اس سے انکارنہیں کرتالیکن اس سے جڑے اکثرلوگ نہ میرے ہیں اورنہ ہی تمہارے۔پھراس نے اپناایک واقعہ سنایا۔کہنے لگے کہ کروناکی دوسری لہرکے دوران میں اس وباء کی لپیٹ میں آیا۔مجھے علاج معالجے کی عرض سے کرونا وارڈ میں داخل کیاگیاوہاں رائونڈپرجب ایک ڈاکٹرآتاتووہ الگ دوائی لکھ کرجاتااس کے بعدجب دوسراآتاتووہ اس سے بھی کوئی الگ دوائی لکھ کرجاتا۔میرے بچے سے ایک ڈاکٹرکہتاکہ یہ دوائی لائوتودوسراکہتایہ لائو۔
ان ظالموںنے تومجھے بھی معاف نہیں کیا ۔آپ یقین کریںپھرجب مجھے سانس لینے کیلئے آکسیجن سلینڈرکی ضرورت پڑی تومیری برادری کے انہی ڈاکٹروں نے مجھے آکسیجن کا ایک چھوٹاسا سلینڈربھی نہیں دیا۔آپ غریبوں کی بات کرتے ہیں ہماراتواپنایہ حال ہے۔ڈاکٹرشکیل کی یہ باتیں سن کرہم پھرکافی ٹائم تک سوچتے رہے کہ جب ایک سینئرڈاکٹراور بڑے ہسپتال کے ایک ذمہ دارشخص کایہ حال ہے توپھراس ملک کے غریبوں ،لاچاروں،بے وسوں اوربے کسوں کاتوان ہسپتالوں میں بے حال ہونالازمی امرہے۔دورجدیدکے ان ماڈرن ڈاکٹروں کی پرچیوں ،تجربوں اورنئی نئی دوائیوں کی تجویزسے اگرایک سینئر ڈاکٹر محفوظ نہیں توپھرہماراجیساایک غریب ، لاچار اور کمزور کیسے محفوظ رہ سکتاہے۔۔؟پولیس کے شیرجوانوں کے بارے میں تو کئی باریہ سنا تھاکہ یہ کسی کے نہیں ہوتے لیکن ان ڈاکٹروں کواپنی آنکھوں سے دیکھاکہ پیسے کے مقابلے میں یہ کسی کے نہیں ہوتے۔ان کاکام صرف پیسہ کماناہے۔کوئی مریض مرے یاجیئے ۔ان کااس سے کوئی سروکارنہیں۔ان کاکام توصرف اپنی فیس اورکمیشن تک محدودہے۔کسی کویقین نہیں تومغرب سے مشرق اورشمال سے جنوب تک کسی نامی گرامی ڈاکٹرکے کلینک پرجاکراپنی تسلی کرالیں۔ اس ملک میں سبزی سے لیکر انڈے تک ہرچیزکے نرخ مقررہیں لیکن ایک میڈیکل کاشعبہ ونظام ایساہے کہ جہاں ڈاکٹرکی فیس سے لیکرسادہ ایکسرے اورعام ٹیسٹ تک کسی چیزکے کوئی ریٹ مقررنہیں۔
یہ میڈیکل ٹیکنیشن ، ڈسپنسر اور ڈاکٹرپر ہے کہ وہ زندگی کی چندسانسیں لینے کے لئے آنے والے مریض کوکتنااورکس طرح لوٹتاہے۔۔؟ لاہورہو،کراچی ہو، پشاورہو، گلگت ہو، چترال ہو، فیصل آبادہو، ملتان ہو، ایبٹ آبادہویاپھر مانسہرہ اوربٹگرام۔ کسی ایک صوبے، ضلع، تحصیل ، شہر،گائوں اوردیہات میں بھی ڈاکٹروں کی فیس ایک نہیں۔ اس ملک میں تومزدورکی پورے دن کی اجرت اوردیہاڑی بھی اتنی نہیں جتنی ایک چھوٹے سے ڈاکٹرکی ایک مریض کی فیس ہے۔ہم یہ نہیں کہتے کہ اس ملک میں ہرڈاکٹرہمارے چورسیاستدانوں اورڈاکوحکمرانوں کی طرح لٹیراہی ہے لیکن ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے اکثرڈاکٹرپیسے کی لالچ اورچمک سے کوئی پاک ہیں۔پیسے کی حرص نے آج ہمارے ان مسیحائوں کوبھی ڈاکٹرکی جگہ ڈاکو بنادیا ہے۔ انصاف کی نظرسے اگر دیکھا جائے توآج اس ملک میں چورسیاستدانوں اور ڈاکو نما حکمرانوں کے ساتھ ان لٹیروں ڈاکٹروں سے بھی کوئی غریب اورمجبورمحفوظ نہیں۔وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ہم نے خیبرپختونخوامیں صحت کانظام ٹھیک کردیاہے لیکن سچ اورحقیقت یہ ہے کہ پورے صوبے میں سرکاری ہسپتالوں سمیت صحت کاپوراسسٹم اورنظام تحریک انصاف کی اس اٹھ سالہ دورحکومت میں تباہ ہوکررہ گیاہے۔سرکاری ہسپتالوں کی شکل وصورت میں غریب عوام کے لئے جومدہم سی روشنی تھی ۔ایم ٹی آئی سمیت شعبہ صحت پردیگرحکومتی تجربات اور ایجادات کی برکت سے وہ مدہم سے روشنی اورامیدکی ہلکی سی جھلک بھی اب باقی نہیں رہی ہے۔ حکومتی کوکھ سے صحت سہولت کارڈکے جنم لینے کے بعداب سرکاری ہسپتالوں کی حالت بھی لوٹ مارمیں پرائیوٹ ہسپتالوں سے کچھ کم اورمختلف نہیں۔ غریب پہلے صرف باہرلٹتے تھے اب گھرکے اندربھی لٹنے لگے ہیں۔موجودہ حالات میں ڈاکٹرسرکاری ہے یاپرائیوٹ۔ کسی سے بھی ہمارے جیسے غریب محفوظ نہیں۔ان حالات میں توہماری بس ایک دعاہے کہ ان ظالم ڈاکٹروں جنہوں نے آج ڈاکوئوں کاروپ دھاراہواہے اللہ ہی ایسے ڈاکونماڈاکٹروں سے ہم سب کو بچائے۔ آمین