مولانا طارق جمیل ایک باعزت گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے گو رنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی ہے، وہ کوئی حلوے والی پکی روٹی پڑھ کر سیاست میں آنے والے مولوی نہیں ہیں ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے خاص کر جب مغرب جیسے ممالک میں بچے پل رہے ہوں جہاں ہم بہت سی چیزوں سے دور ہوتے ہیں نہ ہی آذان ہوتی ہے نہ قربانی، بہت سے تہوار پاکستان جیسے نہیں ہوتے تو والدین بچوں کو طارق جمیل کی تبلیغ سناتے ہیں کیونکہ وہ تشدد پر نہیں اکساتی ہیں۔
ہمیں ایسے لوگوں کی عزت کرنی چاہیے نہ کہ غنڈہ گردی کر کے ان سے معافی منگوا کر اپنی جیت کا جشن منائیں اور خود کو سلطان راہی سمجھنا شروع کردیں، یہ کام ہمارے اربوں پتی صجافی جو پلاٹ لے کر لکھتے ہیں انکا ہے، یہ پرانے زمانے کے مراسی ہیں، جو پیسے لے کر تعریف کرتے تھے، جنکو چوہدریوں نے بانٹا ہوتا تھا جب کبھی کوئی شادی یا خوشی ہوتی تو پیسے دے کر اپنی اپنی تعریف اور مخالف کی برائی کراتے تھے اس لئے ان مراسیوں کی بات میں نہیں بلکہ انکو دیئے گئے پیسے میں وزن ہوتا تھا۔ جتنا پیسہ جدھر سے ملتا اسی کی تعریف اور دوسرے کی برائی پر لگ جاتے تھے ۔
یہی حال پاکستان میں ہے جو پیسہ دیتا ہے اسی کی تعریف پر لگ جاتے ہیں نہ ہی انکا کوئی مذہب ہے نہ ہی کوئی وطن، انکو صرف پیسے سے مطلب ہے۔ پاکستان میں سارے فساد کی جڑ یہ لوگ ہی ہیں اور بدقسمتی سے کوئی قانون بھی نہیں ہے، جہاں عام بندے کی سنوائی ہو جہاں قانون نہ ہو وہاں انصاف نہیں ہوتا اور عوام لڑتی ہے مولانا جیسے بندے عزت بچانے کے ڈر سے معافی ہی مانگے ہیں، لیکن ملک ریاض جیسے ڈان پیسے کی طاقت سے اپنے مراسیوں کو آگے کر دیتے ہیں اور پھر یہی حالت ہوتی ہے جو پاکستان میں آئے دن ہورہی ہے ۔ کیا کبھی پاکستان میں انصاف کا بول بالا ہوگا، کیا کبھی ان صحافیوں کے آمدن سے زیادہ اثاثوں کی چھان بین ہوگی، کیا کبھی امیر غریب کیلئے ایک قانون بنے گا یا ہم ساری زندگی یہی سرکس دیکھتے رہیں گے ؟