322

مستونگ حملہ اور دینی حلقوں کے لئے سبق۔ Mastung Attack and Lesson for Religious Authorities

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبد الغفور حیدری پر ہونے والے خود کش حملے میں اگرچہ مولانا خوش قسمتی سے بچ گئے ہیں لیکن کئی افراد شہید اور مولانا سمیت بہت سے زخمی ہوئے۔ اللہ شہدا کے درجات بلند فرمائے ، ان کے لواحقین کو صبر عطا فرما کر ان کی مشکلات حل فرمائیں اور اللہ تعالی زخمیوں کو جلد صحت عطا فرمائیں۔ اس حملے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ سینیٹ وفاق پاکستان کی علامت ہے، اس پر حملہ پورے پاکستان پر حملہ ہے۔

جے یو آئی کے بارے میں اگرچہ کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت اور بالواسطہ طور پر سہی انتہا پسندانہ سوچ کی آب یاری کرتی رہی ہے، لیکن وہ بالکل ایک مستقل بحث ہے جسے یہاں چھیڑنا بے سود ہوگا ، یہ بہر حال حقیقت ہے کہ گزشتہ دہائی ڈیڑھ دہائی سے دیوبندیوں میں جے یو آئی واحد تنظیم رہی ہے جو عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کی کھل کر مخالفت کرتی چلی آئی ہے ، اسی وجہ سے خود مولانا فضل الرحمان سمیت جے یو آئی کے کئی راہ نما دہشت گردی کا نشانہ بنتے چلے آئے ہیں۔ گویا یہ جماعت شدت پسندوں کی نظر میں سب سے زیادہ کھٹکتی ہے۔ گزشتہ ماہ نوشہرہ میں ہونے والے صد سالہ اجتماع میں انہوں نے جمعیت علمائے ہند سے منسلک علمائے دیوبند کے ۱۹۲۰ کے لگ بھگ اختیار کردہ پر امن جد وجہد اختیار کرنے اور عسکری یا خفیہ تحریکوں کو چھوڑنے کے لائحہ عمل کو مزید ہائی لائٹ کیا اور نوجوانوں کو بتایا کہ عسکریت پسندی کا ان علمائے دیوبند کی فکر سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ شاید اس اجتماع کا بڑا مقصد ہی یہ تھا۔ ظاہر ہے یہ چیز دوسری قوتوں کو آسانی سے ہضم ہونے والی نہیں تھی۔

اب تک کی اطلاع کے مطابق حملہ خود کش ہے، اس سے اتنی بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ حملہ آور کو مذہب کے نام پر گمراہ کیا گیا تھا اور یہ تعین ہوجاتا ہے کہ حملہ کرنے والے کس ذہنیت کے لوگ ہیں بلکہ کہا جارہا ہے کہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کرلی ہے۔ جے یو آئی نے پر امن سیاسی جد وجہد کی بات تو کی ہے لیکن اس نے کبھی بھی عسکریت پسندوں کو نہ تو گالی دی ہے نہ برا بھلا کہا ہے نہ ہی ان کے خلاف اس طرح کا کوئی سخت فتوی دیا ہے جیسا ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ نے ان کے خوارج ہونے کا دیا تھا، بلکہ دیگر دیوبندیوں کی طرح جے یو آئی پر بھی یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ ان تنظیموں کے لئے تاویلیں ڈھونڈتے یا ان سے مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمان نے جب حکیم اللہ محسود کو شہید کہا تھا تو خاصا شور ہوا تھا، گویا جے یو آئی کا عسکریت پسندوں کے حوالے سے صرف اتنا قصور تھا کہ وہ ان کے لائحہ عمل کے متبادل لائحہ عمل ، ان کے بیانیے کے متبادل بیانیہ اور ان کی سوچ سے ہٹ کر اپنی سوچ پیش کرتے رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ ان قوتوں کے نزدیک ان کی رائے سے ہٹ کر رائے رکھنے والے کو جینے کا حق حاصل نہیں ہے، یہ خاص قسم کی ذہنیت در حقیقت خوارج کی ذہنیت ہے۔ ابن رجب حنبلی نے ایک معروف تابعی میمون بن مہران کا قوال نقل کیا ہے کہ خارجی وہ ہوتا ہے جو تمہارے قتل کے اس لئے در پے ہو کہ تم اس سے مختلف رائے رکھتے ہو۔

عسکریت پسند تنظیم کوئی بھی ہو ان کا سپانسر کوئی بھی ہو، یہ خاص قسم کی سوچ سب میں قدرِ مشترک ہے، یہی وجہ ہے صرف پیپلز پارٹی اور اے این پی جیسی جماعتیں ہی ان کا نشانہ نہیں بنیں بلکہ جید علما بھی اس سوچ کا شکار ہوچکے ہیں۔ مولانا حسن جان، مولانا نور محمد وزیرستانی مولانا محسن شاہ وغیرہ اس کی چند مثالیں ہیں۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ متعدد دینی حلقوں میں اس سوچ اور ذہنیت پر اس شدت کے ساتھ تنقید نہیں ہوئی جس طرح ہونی چاہئے تھی نہ اس سوچ کی تردید ’’رد فرق باطلہ‘‘ کے کسی کورس کا حصہ بن سکی ہے۔ مذکورہ بالا علما نہ تو اس طرح سے مظلومین کی فہرست میں شمار ہوئے نہ ہی ہیرو قرار پائے جس طرح بعض دیگر قوتوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے علما مظلوم اور ہیرو قرار پائے، ان علما کا دینی جلسوں میں شاذ ونادر ہی کبھی نام لیا جاتا ہوگا۔ جبکہ احادیث مبارکہ میں جتنی سخت الفاظ میں خوارج کی مذمت کی گئی ہے وہ شاید آنے والے کسی اور فتنے کے بارے میں نہیں ملتی۔

گزشتہ دنوں قندھار میں ایک سکالر عبد الغفور پیروز کو بھی شہید کردیا گیا تھا، اگرچہ دور بیٹھ کر یہ فیصلہ کرنا ہمارے لئے ممکن نہیں ہے کہ اس قتل کے محرکات کیا ہوں گے، یہ بھی معلوم نہیں کہ وہاں کی پولیس نے اب تک کیا تحقیقات کی ہیں، تاہم اس قتل ناحق کی بھی ایک ممکنہ وجہ یہ ذہنیت بھی تھی کہ ہم سے مختلف سوچ رکھنے والا زندہ رہنے کا حق دار نہیں ہے۔ غامدی مکتب فکر جو براہ راست غم زدہ حلقہ تھا کو عام علما سے یہ شکایت رہی کہ انہوں نے اس قتل کی اس انداز سے مذمت نہیں کی جیسی ہونی چاہئے بلکہ چونکہ چنانچہ کا انداز اختیار کیا گیا۔ اس حد تک ان حضرات کا شکوہ بجا ہے کہ اگرچہ امر واقعہ میں ابہام موجود تھا تب بھی ’’اگر‘‘ کے ساتھ تو اس ذہنیت کی مذمت کی جاسکتی تھی کہ اگر اختلافِ فکر کی وجہ سے عبد الغفور کو جینے کے حق سے محروم کیا گیا ہے تو یہ ذہنیت انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس لئے پیروز اس نوعیت کے پہلے شخص نہیں تھے ڈاکٹر فاروق کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ لیکن اسی کے ساتھ ان حضرات کو اپنے شکوے میں نرمی پیدا کرنی چاہئے کہ ایسا صرف عبد الغفور پیروز کے ساتھ نہیں ہوا ، بلکہ مولانا حسن جان سے لے کر مولانا سرفراز نعیمی تک کئی علما بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ حتی کہ جب قاضی حسین احمد حملہ ہوا تھا تو خود قاضی صاحب اور جماعت اسلامی کھل کر بات نہیں کرسکے تھے۔ یہ صرف مولانا فضل الرحمان تھے جنہوں نے حامد میر کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے اوپر ہونے والے حملے کی نسبت کھل کر طالبان کی طرف داری کی تھی، جب حامد میر نے پوچھا کہ کیا یہ حملہ طالبان نے کیا تو مولانا نے کہا اور کیا فرشتوں نے کیا تھا۔

بہر حال اس ذہنیت کے خلاف اب پہلے کے مطابق سوچ میں اگرچہ بہت حد تک کلیرٹی آگئی ہے تاہم اس میں مزید بہتری کی گنجائش موجود ہے ، خاص طور پر کسی ملک ، حلقہ فکر یا طبقے کی تمیز کے بغیر اس اصول کے جرأت مندانہ اطلاق کی ضرورت ہے کہ اس ذہنیت والا جو بھی ہو جہاں بھی ہو وہ ہماری نظر میں وحشی اور درندہ ہے اور جو بھی اس ذہنیت کا نشانہ بنے وہ مظلوم اور ہماری ہمدردی کا مستحق ہے۔ان تنظیموں کا معاملہ تو اب اتنا سادہ نہیں رہا، یہ نظریاتی تنظیموں سے زیادہ مختلف طاقتوں کی فرنچائز بن چکی ہیں جو اپنے باس بدلتی بھی رہتی ہیں، ہمارا مسئلہ اپنے نوجوان کو ان کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رکھنا ہے ، کوئی بھی نظریاتی ابہام اس مقصد کے حصول میں نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ایک مرتبہ پھر دعا ہے کہ اللہ تعالی مولانا عبد الغفور حیدری اور دیگر زخمیوں کو جلد شفا عطا فرمائیں۔

( تعارف : محترم مفتی محمد زاہد
معروف عالم دین اور جامعہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتم ہیں۔ آپ جدید و قدیم
کا حسین امتزاج اور استاد الاساتذہ ہیں، مکالمہ ڈاٹ کام)

اپنا تبصرہ بھیجیں