Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
173

لندن سے بریڈ فورڈ

80ء اور 90ء کی دہائی میں پاکستان سے لندن آنے والے اردو کے شاعروں اور ادیبوں کاد وسرا پڑاؤ بریڈ فورڈ ہوا کرتا تھا۔ اس شہر میں اردو کتابوں کا سب سے بڑا مرکز ”بک سنٹر“ تھا جو اب بھی موجود ہے۔ اسی طرح بریڈ فورڈ سے شائع ہونے والا ہفت روزہ راوی پورے برطانیہ میں اردو کے قارئین میں مقبول تھا۔ بریڈ فورڈ ایک ایسا ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی شہر ہے جہاں ہر رنگ، مذہب اور ثقافت کے لوگ آباد ہیں اور یہاں 150مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بریڈ فورڈ کو 1897ء میں شہر کا درجہ ملا۔ 1910ء میں اسے یورپ کا سب سے امیر ترین شہر قرار دیا گیا کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ رولس رائس کاریں بریڈ فورڈ کے لوگوں کے پاس تھیں۔ سطح سمندر سے 554فٹ بلند ہونے کی وجہ سے بریڈ فورڈ برطانیہ کا سب سے اونچا شہر ہے۔ کوئین وکٹوریہ کے زمانے میں بریڈ فورڈ اون کے کپڑے بنانے اور صنعتی پیداوار کے لئے بہت مشہور تھا اور آج بھی پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں سب سے زیادہ صنعتی عمارتیں اسی شہر میں ہیں۔اِن دنوں بریڈ فورڈ کی کل آبادی ساڑھے پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہاں سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی ہے جس کا تناسب تقریباً 30 فیصد ہے اور ان میں اکثریت پاکستانی اور کشمیری مسلمانوں کی ہے جبکہ عیسائی آبادی 46فیصد ہے۔ اس شہر کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں محمد عجیب 1985ء میں لارڈ میئر بنے تو انہیں یونائیٹڈ کنگڈم میں اس منصب پر پہنچنے والے پہلے ایشیائی ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہیں ملکہ برطانیہ کی طرف سے 2001ء میں سی بی ای کا ایوارڈ بھی دیا گیا۔ کچھ عرصہ پہلے اُن کی شخصیت کے بارے میں ایک کتاب ”MOHAMMAD AJEEB, LIFE AND CONTRIBUTION“ بھی شائع ہوئی ہے۔ بریڈ فورڈ کری کیپٹل آف بریٹن بھی کہلاتا ہے۔یہاں ہر سال سب سے مزیدار کری (مسالے دار دیسی کھانے) بنانے کا مقابلہ بھی منعقد ہوتا ہے۔مختلف مقامات پر سب سے زیادہ فواروں کی تنصیب کی وجہ سے بریڈ فورڈ کو سٹی آف فاؤنٹین بھی کہا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو کی طرف سے اسے سٹی آف فلم کا اعزاز بھی دیا جا چکا ہے اور یہاں 2007ء میں انٹرنیشنل انڈین فلم فیسٹول بھی منعقد ہو چکا ہے۔ نیشنل سائنس اینڈ میڈیا میوزیم اور الحمبرا تھیٹر اس شہر میں سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہاں اردو کے ایک عمدہ شاعر موج فرازی رہا کرتے تھے۔ جاوید اختر بیدی اور حفیظ جوہر جیسے شاندار شاعروں کا تعلق بھی اسی شہر سے تھا۔ جاوید اختر بیدی سے میری کئی ملاقاتیں مشاعروں میں ہوئیں۔ ٹیلی فون پر بھی اُن سے بات چیت ہوتی رہتی تھی۔ وہ ایک بے نیاز شاعر تھا اور کئی شعری مجموعوں کا خالق ہونے کے باوجود شہرت اور نمائش کی خواہشوں سے دور رہتا تھا۔اس کی ایک غزل کا شعر ہے

؎ سر سرانے لگے جب سانپ تو یہ شعر ہوئے

اب ہوا اِن کو نہ گائے تو یہ قسمت فن کی

منفرد شاعر انجم خیالی بھی کچھ عرصہ بریڈ فورڈ میں مقیم رہے۔ تارکین و طن کی کیفیتوں کا انہوں نے اپنے ایک شعر میں یوں احاطہ کیا ہے۔

؎ اذاں پر قید نہیں ، بندشِ نماز نہیں

ہمارے پاس تو ہجرت کا بھی جواز نہیں

حضرت شاہ ایک زمانے میں ادبی محفلوں کے روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ پاکستان سے آنے والے شاعروں اور اہل قلم کے اعزاز میں مشاعروں اور تقریبات کا اہتمام کرناوہ اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ اُن کی وجہ سے بریڈ فورڈ ادبی گہما گہمی کے لئے لندن کے بعد دوسرا بڑا مرکز تھا۔ حضرت شاہ گذشتہ دِنوں اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ اُن کی وفات پر مجھ سمیت برطانیہ بھر کے شاعر اور ادیب تاحال بہت اداس اور ملول ہیں۔ خالقِ کائنات انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ کچھ دِن پہلے بریڈ فورڈ میں ہی نامور ادیب اور صحافی مقصود الٰہی شیخ انتقال کر گئے۔ وہ برطانیہ میں اردو ادب اور صحافت کا بڑا نام تھے۔ اُن کی خدمات کو پاکستان اور بھار ت کے علاؤہ یورپ اور اُن تمام ملکوں میں سراہا جاتا ہے جہاں اردو زبان پڑھنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔ 89سال کی عمر میں وفات پانے والے مقصود الٰہی شیخ کو حکومتِ پاکستان کی طرف سے پرائڈ آف پرفارمنس یعنی تمغہ حسن کارکردگی بھی دیا گیا تھا۔ برطانیہ میں انہوں نے اردو زبان کے فروغ کے لئے جو کارہائے نمایاں سرانجام دیئے انہیں کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ایک شاندار انسان اور عمدہ افسانہ نگار تھے۔ 40برس تک ”راوی“کی اشاعت کے بعد انہوں نے ایک ادبی رسالہ مخزن جاری کیا جس کی اردو دنیا میں بہت پذیرائی ہوئی۔ دیارِ غیر میں اردو زبان و ادب کی ترویج مقصود الٰہی شیخ کی زندگی کا مشن تھا اور وہ اس مشن میں بہت حد تک کامیاب رہے۔ افسانہ نگاری اور ناولٹ نویسی کے علاؤہ انہوں نے مختصر کہانیوں کو پوپ کہانی کے نام سے لکھنے کی بھی طرح ڈالی جس کو ادبی حلقوں کی طرف سے بہت سراہا گیا۔ مقصود الٰہی نے بہت بھرپور زندگی گزاری اور اپنے پیچھے مداحوں اور قدردانوں کی ایک بڑی تعداد سوگوار چھوڑ گئے۔ وہ ایک مثبت سوچ اور امید بھری طرزِ فکر رکھنے والے انسان تھے جو آخری عمر تک ادبی اور تخلیقی مشن کو آگے بڑھانے میں مگن رہے۔ ایک وقت تھا کہ بریڈ فورڈ میں اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی ایک کہکشاں موجود تھی اور برطانیہ آنے والے پاکستانی اہلِ قلم لندن کے بعد بریڈ فورڈ کا ہی رخ کرتے تھے جہاں اب جاویدا قبال ستار، اسد ضیا اور عابد ودود جیسے شاعر یعقوب نظامی جیسے ادیب اور ظفر تنویر جیسے صحافی نہ صرف اردو زبان کی لاج رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنے اپنے حصے کے چراغ جلا رہے ہیں۔ جاویدا قبال ستار ایک اچھے اورعمدہ شاعر ہونے کے علاؤہ ایک رسالے چنیدہ کے بھی مدیر رہے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے نامور شاعر بریڈ فورڈ میں جاوید اقبال ستار کی میزبانی کو اپنے لئے ایک خوشگوار اعزاز سمجھتے تھے۔ جاوید ستار آج کل کچھ گوشہ نشین ہیں اور لکھنے پڑھنے کے معاملات میں زیادہ منہمک ہیں۔ ظفر تنویر اور اسد ضیا اردو کے بے مثال صحافی، شاعر اور ادیب چراغ حسن حسرت کے چھوٹے بھائی ضیاء الحسن کے فرزند ہیں۔ ظفر تنویر ایک طویل مدت تک روزنامہ جنگ لندن سے وابستہ رہے ہیں۔ بریڈ فورڈ میں یعقوب نظامی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اُن کی درجن بھر کتابیں شائع ہو کر قارئین میں مقبول ہو چکی ہیں۔ وہ ایک پُر وقار سفر نامہ نویس، تاریخ دان اور تجزیہ نگار ہیں۔ اُن کی اولین کتاب پاکستان سے انگلستان تک کے کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ یہ کتاب برطانیہ آنے والے تارکین وطن کی زندگی اور اُن سے منسلک دلچسپ حقائق کا مجموعہ ہے۔ یعقوب نظامی کی نامور ادیب اور صحافی محمود ہاشمی سے بہت قربت رہی۔ اسی لئے انہوں نے ایک کتاب ترتیب دی جو محمود ہاشمی کی نگارشات پر مبنی ہے۔بریڈ فورڈ ایک ایسا شہر ہے جس کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں پہنچ کر یوں لگتا ہے کہ آپ پاکستان یا کشمیر کے کسی رہائشی مقام تک آ گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں پہلی بار 1994ء میں بریڈ فورڈ گیا تھا۔ حضرت شاہ نے مجھے ایک مشاعرے میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ مشاعرے سے اگلے روز انہوں نے مجھے اور دیگر مہمان شاعروں کو پورے شہر کا چکر لگوایا بلکہ سیر سپاٹا کروایا۔ اس وقت سے میں اس شہر کی گہما گہمی اور رونق کا اسیر ہوں۔ ویسے بھی شہر اپنے مکینوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ جس دیار میں بھی آپ کے اپنے پیارے مقیم ہوں وہ مقام آپ کو اچھے اور اپنے لگنے لگتے ہیں۔

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسد

مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

(غالب)

بریڈ فورڈ میں مسلمانوں کی 30فیصد سے زیادہ آبادی کا سبب کیا ہے؟ اس کا بنیادی سبب اس شہر میں قائم صنعتیں اور خاص طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری تھی جہاں ملازمتوں کی دستیابی نے محنتی تارکین وطن کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر ملازمت کے حصول کے بعد یہ لوگ اسی شہر کے ہو کر رہ گئے اور اب یہاں اِن تارکین وطن کی تیسری اور چوتھی نسل پروان چڑھ رہی ہے اور اب بریڈ فورڈ ہی اس نئی نسل کی پہچان ہے اور وہ اس پہچان پر فخر بھی کرتے ہیں جس نے ان کی پرورش کر کے اس قابل بنایا کہ وہ زندگی کی دوڑ میں اپنی کامیابی کے حصول کے لئے جستجو اور کوشش کر سکیں۔

٭٭٭