191

لندن تقریبات کا شہر

ویسے تو لندن کو میوزیمز (عجائب گھروں) اور پارکس (پارکوں) کا شہر کہا جاتا ہے لیکن برطانوی دارالحکومت میں رہنے والے اسے تقریبات کا شہر بھی کہتے ہیں۔ لندن میں سال بھر طرح طرح کے فیسٹیول، نمائشیں، فیشن شوز، بڑی بڑی تقریبات، میوزک کنسرٹ، چیرٹی ڈنرز، استقبالیے، سپورٹس ٹورنامنٹس، کانفرنسز، فلموں کے پریمیئر، سیمینار، ایوارڈ شوز، کتابوں کی رونمائی اور مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں۔ لندن میں سال کے 12 مہینے گہما گہمی جاری رہتی ہے۔ موسم گرم میں یہ رونقیں عروج پر ہوتی ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی کی زیادہ توجہ پاکستان سے آنے والے سیاست دانوں اور مشہور و معروف لوگوں کی پذیرائی اور ان کے اعزاز میں تقریبات کی طرف ہوتی ہے۔ نامور لوگوں کی اکثریت پاکستان سے روانگی سے پہلے ہی لندن میں اپنے قدردانوں اور میزبانوں کو باور کروا دیتے ہیں کہ وہ جتنے دن کے لیے برطانیہ آرہے ہیں ان دنوں میں کسی نہ کسی عشائیے، استقبالیہ یا کسی خصوصی تقریب کا اہتمام کر لیا جائے۔اسی لئے بعض اوقات ان کے اعزاز میں ایک دن میں دو دو تقریبات یا ضیافتیں ہوتی ہیں۔ وطن عزیز سے برطانیہ آنے والے اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ لندن میں انہیں خاطر خواہ پذیرائی اور ان کے اعزاز میں کوئی شاندار مشاعرہ یا ادبی تقریب منعقد ہو۔ انہیں کسی یادگاری شیلڈ یا ایوارڈ سے نوازا جائے۔ایک زمانہ تھا کہ لندن میں بہت عمدہ ادبی تقریبات اور شاندار مشاعرے منعقد ہوا کرتے تھے۔مگر گزشتہ 30 برس کے دوران اردو بولنے، پڑھنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں بہت کمی آئی ہے۔ اس لیے اب یہاں کی شعری نشستوں یا مشاعروں میں جو شاعر اپنا کلام سنانے کے لیے شریک ہوتے ہیں سامعین بھی وہ خود ہی ہوتے ہیں۔ ان تقریبات میں اچھی شاعری سننے کا ذوق رکھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ کسی مشاعرے میں بے وزن کلام سنانے کو مشاعرے اور منتظمین کی توہین سمجھا جاتا تھا اور کسی تک بند اور بے وزن شاعر کو مشاعرے میں کلام سنانے کی زحمت نہیں دی جاتی تھی اور اب یہ عالم ہے کہ اگر لندن یا برطانیہ کے کسی دوسرے شہر میں مشاعرہ ہو اور اس میں 20 سے 25 شعراء مدعو ہوں تو ان میں نصف سے زیادہ کلام سنانے والے تک بند، بے وزن اور متشاعر ہوتے ہیں اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان میں زیادہ تعداد متشاعرات کی ہوتی ہے۔ ان میں سے کچھ متشاعرات ایسی بھی ہیں جنہوں نے ابتدا میں اپنا کلام اصلاح کے لیے مجھے بھیجا جسے پڑھنے کے بعد میں نے انہیں مخلصانہ مشورہ دیا کہ شاعری آپ کے بس کی بات نہیں آپ کوئی اور معقول کام کریں۔ لیکن انہوں نے اس مشورے کو اپنی ہتک سمجھا اور چند مہینوں بعد اپنا شعری مجموعہ چھپوا کر ڈاک سے مجھے ارسال کر دیا۔دوسرے لفظوں میں اپنا شعری اثاثہ میرے منہ پر دے مارا۔ شعری مجموعہ دیکھ کر میں بہت حیران ہوا کہ جو موصوفہ ایک مصرع بھی وزن میں نہیں لکھ سکتیں بلکہ کسی بھی اچھے شاعر کے عمدہ شعر کو بے وزن کر کے پڑھتی ہیں مگر ان کا پورا مجموعہ وزن کی غلطیوں سے پاک اور مشکل بحروں میں لکھی ہوئی غزلوں پر مشتمل تھا۔ لیکن اس مجموعے کی شاعری میں ایک سقم تھا کہ غزلوں کے زیادہ تر اشعار مردانہ مضامین پر مبنی تھے۔ اس شاعرہ کی غزلوں میں جا بجا رند، ملنگ، قلندر، مجنوں اور اسی طرح کے مردانہ استعارے موجود تھے۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے ہاں بد ذوق لوگوں کی اکثریت نے شاعری کو آسان ذریعہ شناخت سمجھ لیا ہے۔ اچھی شاعری تو دور کی بات ہے جنہیں وزن میں شعر لکھنے کا معمولی سا بھی ادراک نہیں ہے اور جو سخن فہمی سے بھی کوسوں دور ہیں وہ کئی شعری مجموعوں کے خالق بلکہ مالک بنے ہوئے ہیں اور مشاعروں میں مہمان خصوصی اور صدر بننے سے کم پر راضی بھی نہیں ہوتے۔ میں ایسے لوگوں کے بارے میں زیادہ لب کشائی اس لیے نہیں کرتا کہ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ شکنی یا منفی پن کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی قوم، ملک یا مشاعرے پر زوال آتا ہے تو سیاست،مذہب، عدلیہ، نظام تعلیم، انتظامیہ اور تجارت سمیت ادب بھی اس کی لپیٹ میں آ جاتا ہے۔

اردو ادب اور خاص طور پر شاعری اس زوال کی شدید لپیٹ میں ہے اور برطانیہ میں آج کل ہونے والے مشاعروں میں سنائی جانے والی شاعری کو سن کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ یعنی ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی۔خیر بات ہو رہی تھی کہ لندن تقریبات اور رونقوں کا شہر ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں جب الطاف حسین سمیت بے نظیر بھٹو اور نواز شریف بھی برطانوی دارالحکومت میں موجود تھے تو سینٹرل لندن میں پاکستان کے سابق وزراء، اراکین اسمبلی اور دیگر اہم سیاستدانوں کی ٹولیاں ایجوئر روڈ اور ماربل آرچ کے گرد و نواح میں گھومتی پھرتی نظر آتی تھیں۔ ان دنوں لندن میں ایم کیو ایم کے یوم تاسیس کے موقع پر گورنر سندھ کے علاوہ وفاقی اور صوبائی وزراء، سینٹ اور قومی اسمبلی کے اراکین اور سندھ اسمبلی کے ممبران کی شرکت ناگزیر ہوا کرتی تھی۔ لیکن ”پاکستان مردہ باد” (نعوذ بااللہ) کے نعرے نے نہ صرف بھائی کا مستقبل داؤ پر لگا دیا بلکہ جو کہتے تھے کہ رہنما چاہیے منزل نہیں وہ دونوں ہی مطالبوں سے دستبردار ہو گئے۔ بے نظیر بھٹو جنہوں نے لندن کی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر وطن واپسی کا رسک لیا اور بالآخر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ وہ بھی جب لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہی تھیں تو ان سے ملاقات کے لیے آنے والے پیپلز پارٹی کے خیر خوا ہوں اور سابق وزراء اور اراکین اسمبلی کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف چار برس لندن میں علاج کرانے کے بعد گزشتہ ماہ واپس وطن لوٹے ہیں جب تک وہ برطانوی دارالحکومت میں رہے مسلم لیگ (ن) کی سیاست ان کے گرد ہی گھومتی رہی اور پاکستان تحریک انصاف کے جذباتی کارکنوں نے ان کا جینا دو بھر کیے رکھا۔ وہ جب بھی اپنے گھر سے باہر جاتے یا واپس آتے تو ان کے خلاف نعرے بازی کے لیے کوئی نہ کوئی گروپ وہاں موجود ہوتا تھا۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے اور ان کی گرفتاری کے بعد بھی لندن میں نواز شریف اور ان کے بیٹوں کے گھر کے باہر بھرپور احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو اب بھی اسحاق ڈار سمیت مسلم لیگ (ن) کا کوئی رہنما لندن میں کہیں نظر آ جائے تو وہ اسے آڑے ہاتھوں لیتے ہیں اور ان کی تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ پاکستانی سیاستدان لندن میں جس طرح بغیر سیکیورٹی اور پروٹوکول کے آزادانہ گھومتے ہیں اسی طرح اوورسیز پاکستانی آزادئی اظہار کی آڑ میں انہیں آئینہ دکھانے سے بھی باز نہیں آتے۔ مگر پاکستان میں ہمارے سیاسی رہنما اور لیڈر نہ تو بغیر سیکیورٹی کے کہیں آ جا سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اس طرح ان کی تضحیک کر سکتا ہے جس طرح لندن میں کی جاتی ہے۔ لندن دنیا بھر کے سیاستدانوں اور لیڈرز کا بھی پسندیدہ شہر ہے۔ اس شہر میں بڑے بڑے عالمی رہنماؤں نے جلا وطنی کی زندگی گزاری ہے۔ لندن شہر میں ایک منفرد کشش یہ بھی ہے کہ جو ایک بار اس شہر میں آ کر آباد ہو جاتا ہے پھر اس کا دل کسی اور دیار میں نہیں لگتا۔ لندن میں کسی بھی طرح کے ذوق اور دلچسپی رکھنے والے کے لیے ہر وہ چیز موجود ہے جو اس کے ذوق کی تسکین کر سکے۔ سائنس، آرٹ، تھیٹر، تاریخ، سیاست، معیشت، سیاحت اور زندگی کے دیگر شعبوں میں اپنی انفرادیت کے اعتبار سے لندن ایک بے مثال شہر ہے۔ دنیا بھر سے ہجرت کرنے والے تارکین وطن کی ہر ممکن کوشش ہوتی ہے کہ وہ جس ملک میں بھی جائیں وہاں کے دارالحکومت کو اپنی آماجگاہ بنائیں۔ اس لیے نہ صرف لندن کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بلکہ یہاں گہما گہمی اور مہنگائی بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ رہائشی سہولتوں میں اضافے کے لیے درجنوں منزلہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ تقریباً 97 لاکھ آبادی پر مشتمل لندن کے 334 ٹرین اسٹیشنز اور 270 ٹیوب اسٹیشنز پر صبح سویرے جا کر مشاہدہ کریں تو لگتا ہے کہ لوگوں کا سیلاب اپنے کام کی طرف رواں دواں ہے۔ لندن میں 95 فیصد بالغ لوگ کام یعنی ملازمت یا کاروبار کرتے ہیں جس کا مطلب ہے اس شہر میں بے روزگاری کی شرح صرف پانچ فیصد ہے۔ لندن میں دنیا کی ہر بڑی کمپنی کا دفتر موجود ہے جہاں اپنے شعبے کے بہترین لوگ پیشہ ورانہ خدمات انجام دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ لندن کو دنیا کا بڑا اقتصادی مرکز شمار کیا جاتا ہے۔

٭٭٭