33

لندن ایک بے مثال شہر

میں جب ہوائی اڈے سے باہر نکلا تو یہ شہر میرے لئے بالکل اجنبی تھا، اس کے موسم، آب ہوا اور طرز زندگی سے میں یکسر نا مانوس تھا۔ شاید سارے شہر ہی کسی نئے مسافر کے لئے ایسے ہی ہوتے ہیں۔گزرنے والے تیس بر سوں میں، میں اس شہر کے ہر حصے اور ہر علاقے میں گھوما پھرا مگر اس کے باوجود آج بھی مجھے لندن کے بہت حصے اور گوشے بالکل نئے اور حیرت انگیز لگتے ہیں، یہ شہر ہے ہی ایسا۔ جب کوئی مسافراس دیار کا مقیم ہوجاتا ہے تومدتیں گزرنے کے باوجودبھی یہ بے مثال شہر اس کے لئے نیا رہتا ہے۔ لندن شہر کی یہ بہت بڑی خوبی ہے۔ یہاں سال بھر سیاحوں کی آمدورفت جاری رہتی ہے موسم گرما میں وسطی لندن دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں سے بھرا رہتا ہے، اس برطانوی دارالحکومت کی آرٹ گیلریز، عجائب گھروں، فیشن انڈسٹری، تاریخی عمارات، تعلیمی اداروں، تھیٹرز، پارکس، لائبریریز، کیسینوز، دریائے تھیمز، پبلک ٹرانسپورٹ اور رونق میلوں کا کوئی ثانی نہیں۔ تقریباً ایک ہزار نو سو ستر سال پہلے اس شہر کی بنیاد رومنز نے رکھی تھی یعنی لندن 47 ویں صدی عیسوی میں آباد ہوا تھا۔ 32 با روز(کونسلز) پر مشتمل یہ تاریخی شہر اب ایک ہزار پانچ سو بہتر مربع کلومیٹر پر محیط ہے جبکہ ابتدا میں یہ دریائے تھیمز کے کنارے آبادیوں تک محدود تھا۔  یہ شہر صدیوں سے اپنے ہر تاریخی حوالے اور نئے پن کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔  سیکڑوں برس پہلے بھی یہ عالمی توجہ کا مرکز تھا اور آج بھی یہ شہر اقتصادی ترقی اور سماجی ارتقا کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست کا سب سے اہم گڑھ سمجھا جاتا ہے۔گزرنے والے زمانے اور بیت جانے والے وقتوں میں اس شہر سے بہت سی تحریکوں نے جنم لیا۔ اس شہر میں ہونے والے بہت سے سیاسی فیصلوں نے نئی تاریخ کو رقم کیا ان گنت نامور شخصیات، بادشاہ، رہنما، سائنسد۴ان، فنکار، دانشور، اہل قلم اور سر براہان مملکت اس شہر میں مقیم رہے، یہ شہربے شمار تاریخی واقعات اور حادثات کا گواہ ہے گزشتہ کئی دہائیوں اور صدیوں سے لندن کے با رے میں سیکڑوں کتابیں اور دستاویزات لکھی گئیں اور لکھی جاتی رہیں گی مگر پھر بھی ایسا لگتا ہے کہ اس شہر سے متعلق بہت کچھ دریافت ہونا ابھی باقی ہے۔ لندن میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ اس بارے میں تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ 19 ویں صدی میں سب سے پہلے بنگال کے وہ مسلمان لندن آئے جو انگریز جہاز رانوں کے ساتھ خدمت گزار کے طور پر بحری جہازوں میں کام کرتے تھے ایک وقت تھا کہ لندن میں غیر سفید فام لوگ نہ ہونے کے برابر تھے لیکن اس شہر کی کشش ہی کچھ ایسی ہے کہ برطانیہ آنے والے امیگرنٹس (تارکین وطن) کی اکثریت لندن میں پڑاؤ ڈالنے اور آباد ہونے کو ترجیح دیتی ہے حالانکہ یہ دنیا کے مہنگے ترین اور سب سے زیادہ آبادی والے شہروں میں سے ایک ہے۔ گزشتہ نصف صدی کے دوران لندن شہر میں آ کر بسنے والے غیر ملکی لوگوں یعنی امیگرنٹس کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے چین، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ افریقی اوریورپی ممالک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آکر آباد ہوئی۔  لندن کے بہت سے علاقوں ایسٹ ہیم، الفورڈ، والتھم سٹو، ٹوٹنگ اور ساؤ تھ آل وغیرہ میں انڈین اور پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت ہے۔ ان علاقوں میں انگریز لوگ کبھی کبھارہی دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں اگر کوئی سفید فام مرد یا عورت دکھائی بھی دے تو وہ یورپی ممالک کے تارکین وطن ہوتے ہیں۔ جو ایشیائی علاقے میں کرائے کے گھروں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں کیونکہ بریگزٹ کے بعد ہزاروں یورپی لوگ لندن میں مقیم ہوئے اور اب برطانوی دارلحکومت میں کرائے کے گھر یا رہائش کا حصول ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ گھروں کے کرائے آسمانوں کو چھونے لگے ہیں مگر اس کے باوجود کرائے پر گھرحاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ دنیا کے ہر ملک سے تارکین وطن کی لندن آمد نے اس شہر کوملٹی کلچرل کیپیٹل بنا دیا ہے۔

قارئین کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ برطانوی دارالحکومت میں تین سو مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں یعنی دنیا کی تقریباہر زبان بولنے والا شخص اس شہر میں پایا جاتا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ 1961 تک لندن میں 97.7 فیصد انگریز سفید فام آباد تھے یعنی اُس وقت یہاں نسلی اقلیتوں کا تناسب صرف 2.3  فیصد تھا اور اب یہ عالم ہے کہ پورے لندن میں برطانوی گوروں یعنی انگریزوں کا تناسب تقریباً35  فیصد ہے جبکہ اس شہر میں مقیم 65 فیصد لوگوں کاتعلق مختلف نسلی اقلیتوں سے ہے جو امیگرنٹس کے طور پر برطانیہ آئے،  لندن میں آباد ہوئے اوراب اُن کی دوسری یا تیسری نسل اس شہر میں پروان چڑھ رہی ہے۔ لندن اس اعتبار سے بھی منفرد اور بے مثال شہر ہے کہ یہاں ہر رنگ و نسل، مذہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ مذہبی وابستگی کے مطابق 41 فیصد عیسائی، 15فیصد مسلمان، 5 فیصد ہند و، 1.65 فیصد یہودی، 1.64 فیصد سکھ اور 27 فیصد کسی بھی مذہب پریقین نہ رکھنے والے افراد یہاں رہتے ہیں۔ملٹی کلچرل یعنی کثیر الثقافتی ہونے کی وجہ سے یہ شہر ہر طرح کے لوگوں کے لئے خاص کشش رکھتا ہے سال بھر اس شہر کے مختلف حصوں میں ہیں مذہبی اور ثقافتی تہوار منائے جاتے ہیں۔  موسم گرما میں خصوصی ثقافتی میلوں اور تقریبات کااہتمام کیا جاتا ہے۔ گریٹر لندن  میں تقریباًڈیڑھ ہزار مساجد ہیں جبکہ دیگر مذاہب کی عبادت گا ہوں کی تعداد درجنوں میں ہے۔ غیر ملکی امیر کبیر افراد کے لئے لندن ایک لاجواب شہر ہے اسی لئے وہ یہاں مہنگی جائیدادیں خرید کر رہنا پسند کرتے ہیں، ہر طرح کی آسائش اور سکیورٹی کی وجہ سے اس شہر کو گوشۂ عافیت سمجھا جاتا ہے سوائے پاکستان کے اُن کرپٹ سیاستدانوں کے جن کو لندن کے ہر شاپنگ سنٹر، اُن کے اپنے گھر کے باہر،ہوائی اڈے اور دیگر عوامی مقامات پر اوور سیز پاکستانیوں کے شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی سرمایہ داروں، سیاستدانوں اور جاگیرداروں کی ایک بڑی تعداد نے لندن میں قیمتی گھر خرید رکھے ہیں۔ سیاحت اور دنیابھر میں گھومنے کے شوقین جب مختلف ملکوں کے سیر سپاٹے کے بعد لندن آتے ہیں تو انہیں فوری طور پر یہ احساس ہوتا ہے کہ جس نے لندن نہیں دیکھا اس نے کچھ نہیں دیکھا۔ اس شہر کو دیکھنے، پرکھنے، جاننے اور مانوس ہونے کے لئے چند ہفتے یا چند مہینے کافی نہیں۔ اسی لئے جو ایک بار لندن آتا ہے وہ بار بار یہاں آنے کے لئے بے تاب رہتا ہے۔ یہ شہر دلچسپ اور پر رونق ہونے کے علاوہ پر اسرار بھی ہے۔ 90 کی دہائی میں جب میں روز نامہ جنگ لندن میں کام کرتا تھا اُن دنوں ہمارا دفترلندن برج کے قریب بارو سٹیشن کے عقب میں تھا۔ میں کئی۴ بار رات گئے دفتر سے نکل کر پیدل چلتا ہوا ٹاور برج اور لندن برج کے درمیان دریائے تھیمز کے کنارے لگے ہوئے بنچ۴ پر جا بیٹھتا تھا۔ دریا کے کنارے سے شہر کا مشاہدہ اور پلوں سے گزرنے والی ٹریفک کا نظارہ کرنا، بلند و بالا عمارتوں کی جھلملاتی روشنیوں کے عکس کو دریا کے بہتے ہوئے پانی میں دیکھنا اور خوشبو دار کانی سے لطف اندوز ہونا ایک ایسا تجربہ تھا جو آج بھی میری خوش گوار یادوں کا حصہ ہے۔ میں جب بھی اداس ہوتا ہوں توسنٹرل لندن میں دریا کے کنا رہے جا بیٹھتا ہوں یا ٹریفالگر سکوائر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر لندن شہر کی رعنائیوں کے مناظرد یکھنے لگتا ہوں۔یہاں سے ایک راستہ 10 ڈاوننگ سٹریٹ سے ہوتا ہوا برطانوی پارلیمنٹ اوربگ بین کی طرف جاتا ہے اور دوسری سڑک ایک تاریخی محرابی دروازے سے ہو کربکنگھم پیلس کی طرف جاتی ہے۔ ٹریفا لگر سکوائر کے فوارے، مجسمے اورنیشنل گیلری آف آرٹس کی پرشکوہ عمارت لندن شہر کی کی شاندار تاریخ اور شناخت کا اہم حوالہ ہیں۔ لندن ایک ایسی جادو نگری ہے جو ہر حساس انسان کو اپنے طلسمات کا اسیر کر لیتی ہے۔ یہ شہر ہرموسم میں اپنی جاذبیت کو برقرار رکھتا ہے یہاں آج بھی صدیوں پرانی ایسی گلیاں موجود ہیں جہاں سردیوں کی ٹھٹھرتی راتوں میں گلی کے سنسان نکڑ پر تیز ہوائیں لیمپ ہلاتی رہتی ہیں لندن کے چار ہوائی اڈوں،ہیتھرو، گیٹ وک، سٹینسٹیڈ اور سٹی ائر پورٹ پر دن رات ہوائی جہازوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے ان ہوائی اڈوں سے روزانہ ساڑھے چار لاکھ سے سے زیادہ مسافر یونائیٹڈ کنگڈم سے باہر جاتے اور آتے ہیں۔ ریل گاڑیوں،بحری جہازوں اور سڑک کے ذریعے لندن آنے جانے والوں کی تعداد اس کے علاوہ ہے اس حقیقت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لندن کس قدر مصروف شہر ہے یہ اپنے اندرگہما گہمی اور رونقوں کا ایک جہان سمیٹے رکھتا ہے۔ یہ شہر ہر ایک کو ر اس نہیں آتا لیکن جس کو راس آ جائے وہ اس شہر کے علاوہ کہیں اور جا کر نہیں رہ سکتا۔جس کسی کو آرٹ، تاریخ، رونق میلے اور فنون لطیفہ سے شغف ہے لندن اس کے لئے ایک شاندار شہر ہے، کہتے ہیں جو شخص لندن میں خوش نہیں رہ سکتا وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں خوشی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔یہ ملٹی کلچرل شہر اپنے ہر ایک رہائشی کو اس کی مکمل مذہبی، ثقافتی اور سماجی  اقدار کے ساتھ زندگی گزارے کے بھر پور مواقع فراہم کرتا ہے۔لندن میں اردو کے ایک شاعر غلام نبی حکیم ہوا کرتے تھے، انہوں نے اس شہر کے بارے میں کہا تھا

 جب سے آپ آئے ہیں میرے یار لندن شہر میں 

لگ گئی ہیں رونقیں سرکار لندن شہر میں 

عمر بھر جمّن رہے بیکار پھرتے گھومتے

اب گھماتے پھر رہے ہیں کار لندن شہر میں 

مشرقی تہذیب ہی جن کو پسند آئی نہیں 

عیش لوٹیں وہ کھلے بازار لندن شہر میں 

کھل گئی ہیں ہر طرف علم و ادب کی منڈیاں 

شاعری کے لگ گئے بازار لندن شہر میں 

مرد نے پتلون پہنی بیوی نے پہنی سکرٹ

آ، اتاری دونوں نے شلوار لندن شہر میں 

٭٭٭