Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
695

ابھی مجھے پرانا ہونے دیں

بحثیت مومن آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ہر خیر کا کام صرف الله کی رضا و خوشنودی کیلیے کریں اور کسی سے تعریف کی توقع نہ کریں، اور میری ذمہ داری ہے کہ میں آپ کے ہر نیک عمل کی تعریف کروں , حوصلہ افزائی کروں۔

بحثیت مہمان، آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ملاقات سے پہلے وقت لے لیں, گھر آکر ذیادہ تانکا جھانکی نہ کریں , ایسی سائیڈ پر نہ بیٹھیں جہاں سے گھر کا باقی حصہ دکھائی دیتا ہو بلکہ اس طرف پشت کرکے بیٹھیں، مختصر اور ٹودی پوائنٹ بات کرکے اپنا اور میرا وقت بچائیں, ہاں اگر مخاطب کو بھی آپ کی قصہ گوئیوں میں لطف آرہا ہے تو لگے رہیں، اگر قیام ایک سے ذیادہ دن کا ہے تو الاٹ شدہ کمرے کی صفائی کا خود خیال رکھیں، صرف کھانے کی نیت لے کر نہ جائیں (ہاں اگر دعوت ہی کھانے کی ہو تو الگ بات ہے)  میرے اضطرار اور گھڑی کو بار بار دیکھنے سے خود ہی سمجھ جائیں کہ اب آپ کو رخصت ہولینا چاہیے۔۔۔۔۔ اور بحثیت میزبان میری ذمہ داری ہے کہ آپ کا بہترین استقبال کروں آپ کے ملاقات کے مقصد کو پورا کروں,  آپ کی پریشانی سن کر جواباً اپنے دکھڑے لے کر نہ بیٹھ جاؤں  ,  آپ کی ہر بات دلچسپی اور دھیان سے سنوں , آپ کو رحمت سمجھ کر جیب کھول کر مہمان نوازی کروں۔ 

بحیثیت دکاندار آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ بہترین طریقے سے میرے ساتھ ڈیل کریں,گاہک کے ساتھ ساتھ  انسان بھی سمجھیں,  مبالغہ آرائی نہ کریں,  عیب نہ چھپائیں, چیز کے ناقابل واپسی  کا بورڈ اتار لیں , ریٹ مناسب اور فکس رکھیں,  3000 بتانے کے بعد 1500 میں راضی ہوکر اپنا اعتبار اور ہماری عادت خراب نہ کریں جبکہ میری ذمّہ داری ہے کہ میں آپ کی ساری دکان کھلواکر تنگ نہ کروں بلکہ مطلوبہ شے پہلے سے طے کرکے آؤں ,  اگر کھانے پینے کی دکان ہے تو چیزیں پھانکتا نہ پھروں,  بے مقصد کھڑا ہوکر رش نہ لگاؤں۔

بحیثیت دوست آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اچھے سامع بنیں،  بات مسلط نہ کریں، ایگو سائیڈ پہ رکھ دیں،  بحث بڑھنے یا لڑائی کا خدشہ ہو تو حق پے ہوتے ہوئے بھی وقتی طور پر سرنڈر کردیں، غلطی ہوجائے تو تسلیم کرنے میں ہچکچائیں شرمائیں نہیں،  ملاقات کے وقت موبائل ہاتھ میں نہ رکھیں، ہوسکے تو سائلینٹ پر لگا کر رکھ دیں کیونکہ اس وقت سامنے (باقاعدہ)  بیٹھا دوست موبائل کے دوسری جانب بیٹھے دوست سے ذیادہ اہم ہے ، اگر ضروری بات ہے تو ڈائریکٹ کال کر کے مسئلے کو حل کریں میسج پر دیر لگتی ہے اور بعض اوقات بات بھی پوری طرح سمجھ نہی آتی،  اور میری ذمہ داری ہے کہ کن اکھیوں سے آپ کا پیٹرن دیکھنے یا میسج پڑھنے کی کوشش نہ کروں،  بات بات پر طنز نہ کروں،  ہمیشہ اچھا مشورہ دوں اور ہر جائز ناجائز معاملے میں ہاں میں ہاں ملا کر خوش نہ کروں،  کہ وقتی طور پر تو آپکو مزہ آئیگا لیکن عادت بگڑ جائے گی جو مستقبل میں آپکے لیے مسئلہ بن سکتی ہے،  آپ کی غیر موجودگی میں کی تعریف کروں اگر ناجائز مخالفت ہورہی ہے تو دفاع کروں،  غیر موجودگی میں آپ کا ذکر کروں تو یہ گمان کرلوں کہ آپ سامنے بیٹھے ہو،  اس طرح اچھی باتیں ہی کروں گا، اگر آپ کی کی برائی کروں گا تو سب سے پہلا نقصان اپنا ہی کروں گا کہ سامنے والا سوچے گا ” جب یہ اپنے قریبی دوست کی غیبت کررہا ہے تو لامحالہ طور پر میری بھی کرتا ہوگا” اپنے تمام راز نہ بتاؤں کہ کل کلاں لڑائی کی صورت میں یہی دوستی عذاب بن سکتی ہے۔

بحیثیت ذمہ دار شہری کے میری ذمہ داری ہے کہ میں تمام اصول و قوانین کی پاسداری کروں،  روڈ پر وارڈن کی غیر موجودگی میں بھی ریڈ سگنل پر رک جاؤں،  اپنا لائسنس بنوانے میں بالکل سُستی نہ کروں،  بائیک چلاتے ہوئے نہ صرف خود ہیلمٹ پہنوں بلکہ پیچھے بیٹھنے والے فرد کو بھی ہیلمٹ کا پابند کروں،  ہسپتال اور تعلیمی ادارے کے سامنے بلا ضرورت ہارن بجانے سے گریز کروں،  روڈ اور پارکس میں گندگی نہ پھیلاؤں، اور بحیثیت قانون نافذ کرنے والے ادارے کے ملازم ہونے کے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ اپنی روزی کو حلال کرتے ہوئے پورا وقت دیں،  قولاً یا اپنی حرکتوں سے رشوت کا مطالبہ نہ کریں ، قوم کی خدمت کو ثواب سمجھ کر کریں اور تنخواہ کو اضافی بونس سمجھیں۔ 

بحیثیت امام اور واعظ کے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ عوام کو اخلاقیات سکھائیں،  محبتیں بانٹیں،  فرقہ پرستی پر 4 حرف بھیج کر حالات حاظرہ کو سامنے رکھ کر بامقصد گفتگو کریں،  جمعے کی تقریر عین وقت پر ختم کر کے وقت کی پابندی کا عملی ثبوت دیں،  بے سرو پا قصے کہانیاں سنا کر عوام کو ذہنی مفلوج نہ کریں، خطاب کو پریزینٹیشن کے طور پر پیش کریں،  اس کے لیے پاور پوائنٹ پر key points لکھ کر پروجیکٹر کی مدد سے خطاب کریں، اور میری بحثیت نمازی اور سامع ہونے کے ذمہ داری ہے کہ میں غور سے آپ کی بات سن کر عمل کرنے کی پوری کوشش کروں،  واعظ یا خطیب کو ہر خطا سے پاک سمجھ کر اس کی ہر بات کو سچا نہ سمجھوں بلکہ خود بھی تحقیق کی زحمت کرلوں ۔

بحیثیت پڑوسی دوصورتیں ہیں، اگر آپ کے پڑوسی کا اپنا گھر ہے تو اس کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنے کی ہرممکن کوشش کریں کہ یہ رشتہ داروں سے بھی ذیادہ قریب ہوتا ہے آپ کی زندگی کا مکمل نہیں نہی تو غالب حصہ اس کی نظر میں ہوتا ہے، جس دن اچھی یا سپیشل ڈِش بنانی ہو تو پہلے سے ہی اس کا حصہ بھی رکھ لوں،  

اور آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ پلیٹیں ساتھ کے ساتھ واپس کردیں 😂، مجھے چاہیے کہ اس کے بچوں کو اپنا بچہ سمجھوں (لیکن اسکی بیوی کو نہیں 😏😏)  اور اگر بچوں میں جھگڑا ہوجائے تو بالکل ایسے معاملہ کروں جیسے اپنے بچوں کے جھگڑے کے موقع پر کرتا ہوں ، بچوں کی وجہ سے اس کے والدین سے تعلقات نہ بگاڑوں، اونچی آواز میں ڈیک نہ لگاؤں،  گلی کی صفائی کرکے کوڑے کا ڈھیر اس کے گھر کے سامنے نہ لگاؤں،  جب کبھی بائک یا گاڑی پر گھر واپس آؤں تو ہارن بجا بجا کر پڑوسیوں کا سکون برباد نہ کروں،  بلکہ گاڑی سے اتر کر ڈور بیل بجاؤں،  یا گیٹ کی چابی اپنے ساتھ رکھوں،  

دوسری صورت یہ کہ اگر آپ کا پڑوسی کرایہ پر بیٹھا ہے تب بھی آپ اس کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آئیں،  وہی سب معاملات کریں جو، اوپر بیان ہوئے لیکن !!!!!!!!! اس کے ساتھ کمیٹی ہر گز نہ ڈالیں 😛😆۔

بحیثیت شوہر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی مجھے پرانا ہونے دیں😛😆۔۔۔۔۔۔

( عبید الرحمن لکھنے کے ساتھ ساتھ پیشے کے لحاظ سے اون لائین قرآن ٹیچر ہیں )

اپنا تبصرہ بھیجیں