میں اپنی عملی صحافت کے تیسرے سال رپورٹنگ سیکشن کا انچارج تھا 35 سالہ صحافت میں لاکھوں خبروں کا پوسٹمارٹم کیا رپورٹر کی خبر کے الفاظ اس کی کنسٹرکشن اس کی ترتیب واضح کر رہی ہوتی ہے کہ خبر کے پیچھے کیا معاملات کارفرما ہیں لفظ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس کے پیچھے سفارش ہے یہ کسی کو تنگ کرنے کے لیے ہے کسی کو نوازنے کے لیے ہے اسی طرح عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ سیاسی رہنماؤں کے بیانات کے پیچھے اصل حقائق کیا ہیں البتہ سیاست میں تھوڑا معاملہ مختلف ہے کچھ لوگ اپنے لیڈروں کے فین ہوتے ہیں وہ جو مرضی الٹی سیدھی بات کر دیں انھوں نے اندھا دھند تقلید کرنی ہوتی ہے بلکہ وہ اس حد تک جذباتی ہوتے ہیں کہ وہ اس سے اختلاف کرنے والوں سے لڑ پڑتے ہیں کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان بیانات کو تھیٹر کے ڈائیلاگ سمجھ کر انجوائے کرتے ہیں اور بہت سارے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو کسی قسم کا اظہار نہیں کرتے لیکن وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ بات کس پیراہے میں کی جا رہی ہے کس کو چوٹ کروائی جا رہی ہے الفاظ بول رہے ہوتے ہیں کہ ان کے پیچھے چھپی کہانی کیا ہے اسی طرح حکومتوں ،انتظامیہ، اداروں اور پولیس کی کارروائی ایکشن چیخ چیخ کر بتا رہے ہوتے ہیں کہ ان کے مقاصد کیا ہیں ہر ایکشن کا انداز اس کی سنجیدگی بتا رہی ہوتی ہے کہ بظاہر جواز کچھ دیا جا رہا ہوتا ہے ایکشن کچھ کیا جا رہا ہوتا ہے اور اس کے نتائج کچھ اور حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے پوری ریاستی مشینری عمران خان کے وارنٹ گرفتاری وصول کروانا مقصود تھا عمران خان کو گرفتار کرنے کی ضد بیاہی جانا تھی تحریک انصاف کے کارکنوں کا ردعمل چیک کرنا مقصود تھا عوام سب سمجھتے ہیں پولیس کی اتنی بڑی تعداد میں نفری کا ہر طرح کے لوازمات سے لیس ہو کر ایکشن اور پھر وزیر داخلہ کا کہنا کہ آج ہم عمران خان کو ہر صورت گرفتار کر لیں گے عمران خان تاحال تو گرفتار نہ ہو سکا اس سارے ایکشن سے عمران خان کو عوام کی نظروں میں مزید مظلوم کر دیا گیا ہے عمران خان کی ہمدردیوں میں اضافہ ہوا ہے حکومت کی اس ایکشن میں سبکی ہوئی ہے میں نے جو پولیس کے ایکشن سے اندازہ لگایا ہے پولیس کے اعلی افسران حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی آخری حد تک جانے کے لیے تیار تھے لیکن پولیس کا جوان بادل نخواستہ ڈسپلن فورس کی مجبوری کی خاطر کارروائی کر رہا تھا جبکہ تحریک انصاف کا ورکر اپنی عزت بے عزتی سمجھ کر جذباتی طور پر میدان عمل میں کھڑا تھا ایک طرف خانہ پری تھی تھی دوسری جانب جذبات تھے آخر کار جذبات جیت گئے لیکن تحریک انصاف کو اس جیت کی قیمت ادا کرنا پڑے گی حکومت نے تحریک انصاف کی ساری قیادت پر مختلف مقدمات درج کرکے انھیں انگیج کر لیا ہے ساتھ ہی ہر پرچے میں سیکڑوں کارکنوں اور زمان پارک والے مقدمات میں تین ہزار نامعلوم ورکرز کو بھی دھر لیا ہے اب پولیس کے پاس اوپن لیٹر آچکا ہے وہ جس کارکن کو چاہیے گی اس پرفارما میں اس کا نام لکھے گی اور مقدمہ میں شامل کر لے گی جس طرح پولیس نے ان گنت دہشتگردی کے مقدمات درج کر کے دہشتگردی کی دفعات کے خوف کو ختم کر دیا ہے اسی طرح عام ورکرز کو عمران خان کے مقدمہ وار بنا کر ان کی شان میں اضافہ کر دیا ہے بےشمار ایسے ہی چوڑے ہوتے پھریں گے کہ ہم عمران خان کے مقدمہ وار ہیں تحریک انصاف کے ورکرز کی بچت اسی میں ہے کہ وہ انتخابات تک اکھٹے رہیں جو اپنے قافلے سے علیحدہ ہو کر کہیں گیا ناکہ لگائے پولیس اس کو پکڑلے گی کہتے ہیں کسی بھی ایکشن کی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے جس کسی نے بھی زمان پارک پر ایکشن کی پلاننگ کی وہ یہ بھول گیا کہ یہ انتخابات کا موسم ہے ہر کوئی تحریک انصاف کے ٹکٹ کا خواہاں ہے اور وہ عمران خان کی خوشنودی حاصل کرکے ہر صورت ٹکٹ حاصل کرنا چاہتا ہے ایسے میں ہر ایک امیدوار نے بڑھ چڑھ کر اپنا آپ دیکھانا ہے تاکہ عمران خان خوش ہو کر اسے ٹکٹ دے زمان پارک کے باہر میلے کی ایک وجہ انتخابات بھی ہیں حکومت نے غلط وقت پر عمران خان پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے بارات تیار ہو رہی ہو اور پولیس دولہے کو گرفتار کرنے پہنچ جائے تو پھر باراتی دولہے کو گرفتار تو نہیں ہونے دیتے۔
226