566

سائینسی علوم کا فقدان اور عالمی وباء کے اثرات

قارئین! دنیا میں بہت سے سیاسی، سائنسی، معاشی اور سماجی نظام آۓ اور دفن ہو تے گئے. ایک زمانہ تھا جب بین الاقوامی افق پہ کمیونزم کا بول بالا تھا. لیکن آج اسکے نمایاں آثار نظر نہیں آ تے. اسی طرح سوویت یونین کی شکست کیساتھ ہی امریکہ کے سماجی سائنس دان فرانسس فو کیاما  نے” تاریخ کے خاتمے” یعنی امریکی آشیرباد کے حامل سرمایہ دارانہ نظام کو دنیا کیلئے ختمی نظام قرار دینے کا دعویٰ کیا مگر چین کا معاشی سورج طلوع ہوتے ہی یہ دعویٰ بھی فقط دعویٰ ہی ثابت ہوا. وہ بھی ایک دور تھا جب گھوڑے اونٹ اور خچر کو آج کی گاڑی اور جہاز کا مقام حاصل تھا۔ مگر اب جب دنیا جدت اور ارتقائی مراحل سے گزر تے ہوئے موجودہ شکل اختیار کر چکی تو کرہ ارض پر موجودہ نظام کی خامیوں کو کرونا وائرس کی وباء نے حضرت انسان کے سامنے لا کھڑا کیا ہے. بین الاقوامی معاشرے میں موجود ہر ملک اس وباء کیخلاف اپنی اپنی استطاعت یعنی نیشنل پاور کے مطابق حکمت عملی سے لڑ رہا ہے. بعض ممالک نے اس وبا ء کی مشکلات اور ممکنہ نقصانات  کو اپنی نیشنل پاور سے خاطرخواہ حد تک قابو کئے رکھا ہے۔ 

 وطن عزیز میں جہاں تک بات مشکلات اور نقصانات کی ہے وہ تو لامحدودیت کے لفظ کو چھوٹا گردانتے ہیں. مگر پھر بھی انکو چیدہ سطور میں سمونا بحث کیلئے ناگزیر ہے. یہاں پہلے سے موجود معاش بدحالی تو  تھی ہی مگر وباء کے اثرات نے اب اس کو سمجھنا ہی ایک سنگین معمہ بنا دیا ہے. اگر طب اور صحت کے محکمہ پہ غور کیا جائے تو گفتاری ہتھیاروں سے لیس اس بوسیدہ نظام کےنہتے سپاہی نہایت بہادر ی اور دلیری سے وباء کیخلاف برسرِ پیکار ہیں. عوام کی نمایاں تعداد کا خط غربت سے نیچے ہونا تو ایک پہلو تھا. مگر اب کی بار  مزید بیروزگاری اور کاروبار کی بندش سے جو منظر ہے اسکے اعداد و شمارکو قرطاس  کرنا قبل از وقت ہوگا حالانکہ اندازے تو خوب لگا ئے جارہے ہیں مگر بقول شاعر “حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی” اور اصلیت وباء کے اختتام پر ہی آشکار ہو گی۔

ہمارے مستقبل یعنی تعلیمی سرگرمیوں پہ ہر خاص و عام کو تشویش ہے. البتہ ارباب اختیار نے قوم کے نو نہالوں کی تشویش بغیر امتحانات کے پاس کیے جانے سے ختم کر دی ہے. یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اسکو کسی دوسرے وقت کیلئے مختص کرنا ہی” اختصار زہانت کی علامت ہے ” کا شرف حاصل کرنے کے مترادف ہے. مزکورہ مشکلات و نقصانات میں سے چند ایک ہر  کرونا زدہ ملک میں  پائے جاتے ہیں.  لیکن ان ممالک کے تقابلی جائزے سے معلوم پڑتا ہے کہ دور اندیشی اور جدید سائنسی علوم کو اہمیت دینے والے ممالک نے قدرے کم نقصانات اٹھا ئے اور وباء کے اثرات پہ قابو پانے میں نمایاں حد تک کامیاب رہے۔ پاکستان بھی جدید سائنسی علوم سے استفادہ حاصل کر سکتا تھا. مگر بدقسمتی سے یہاں جدت کا رواج پنپنے سے پہلے ہی تنقید، سیاست، اور لاپرواہی کا شکار ہو جاتا ہے. آج سے چھ، سات ماہ قبل وزیراعظم عمران خان نے ڈیجیٹل پاکستان کے منصوبے کی بنیاد رکھی جس میں گوگل جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارے سے آئی۔ٹی کی تجربہ کار ثانیہ ادروس کو اس منصوبے کی زمہ داری سونپی گئی مگر ایک طویل عرصہ گزر نے  کے باوجود تاحال اس پر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔

  محکمہ طب اور صحت جہاں معمول کے مطابق آنے والے ہر مریض کیلئے کرونا کے مریضوں جیسی احتیاطی تدابیر کا اہتمام کیا جاتا ہے. اس زحمت کو ڈیجیٹلائیزیشن کے زریعے مخصوص حد تک کم کیا جاسکتا تھا. باالفاظ دیگر انٹرنیٹ کے زریعے آن لائن او۔پی۔ڈیز کا انتظام کیا جاتا جس میں تمام امراض کے ماہرین کی خدمات لی جاتیں اس طریقہ کار کو اختیار کرنے سے ہسپتالوں پہ دباؤ بھی کم پڑ تا اور موجودہ تزبزب  سے بچا جاسکتا تھا. معاشیات کی دنیا پہ چھا ئے ہوئے کالے بادل بھی چھٹ جاتے اگر انٹرنیٹ کی سہولت مکمل طور پر میسر کی جاتی اور e-commerce کے زریعے small and medium enterprises کو معاشی سرگرمیاں جاری رکھنے کا موقع فراہم کیا جاتا. مزید یہ کہ اسی نسخے یعنی e-education کو تعلیمی میدان میں بھی پر موثر طریقے سے برویکار لایا جا سکتا تھا  جس میں آن لائن کلاسسز سے نا صرف طلبہ کا مستقبل بلکہ نجی اداروں کے اساتذہ کو بیروزگاری سے بھی محفوظ کیا جاتا۔ 

الغرض “ڈیجیٹل پاکستان” کے منصوبے میں ہر مسئلے کا حل ایک مخصوص حد تک موجود تھا. بالخصوص آج کا سب سے بڑا مسئلہ  سماجی دوری کو یقینی بنانا ہے. کیونکہ پاکستان میں مختلف طبقہ فکر کے لوگ ہیں جو ہر نئ آنے والی پالیسی کیخلاف علیحدہ علیحدہ منتق رکھتے ہیں. اس تکرار سے بچنے کیلئے اداروں کی ڈیجیٹلائیزیشن سے آن لائن سرگرمیاں نہایت مناسب طریقہ کار ہوتا. دنیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی سے مختلف ممالک مثلاً چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس جرمنی کینیڈا، ڈنمارک، نیوزی لینڈ، سویڈن وغیرہ نے اس بین الاقوامی وباء کے ممکنہ مشکلات و نقصانات کو خاطرخواہ حد تک قابو کیاہے. جبکہ وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ دیہی علاقے جو کہ ملک کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ ہے انٹرنیٹ کی سہولت سے تاحال محروم ہے. مختصر یہ کہ دنیا مسلسل جدت اور ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے. ہر قدیم نظام کے خاتمے پہ نیا نظام متعارف ہوا لحاظہ یہ اب سمجھ لینا ہی دانشمندی ہے کہ جدید سائنسی علوم کو بروئے کار لانے کے نتائج ہی نیشنل پاور کو بڑھانے کیلئے کارگر ہیں . ورنہ کرونا وائرس کی مہلک وباء تو درکنار ، خس و خاشاک بھی ہمارا مواخذہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں