324

کلبھوشن کیس: قانونی اور سفارتی معاملہ Kulbhushan case legal and diplomatic issue

ایک کیس میں، میں عدالت میں پیش ہوا، معاملہ کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں تھا مگر کلائنٹ ظاہر ہے ڈرا ہوا تھا۔ پیشی سے پہلے مجھ سے کہتا رہا سر جی کوئی گورا بیرسٹر نا کر لیں؟ بوجوہ میں اپنے کیسز میں خود پیش ہوتا ہوں کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے بنائے کیس کو زیادہ بہتر سمجھتا ہوں اور کوئی اور بیرسٹر انصاف نہ کر پائے گا۔ پانچ سات منٹ کے دلائل دے کر کیس میں نے جیت لیا۔ دو دن بعد کلائنٹ کے ایک دوست نے بتایا کہ وہ کہہ رہا تھا”یار میری قسمت چنگی سی کہ جیت گئے، ورنہ وکیل تو بولا ہی نہیں”۔ اس دن سے اگر کسی دیسی کا کیس کرنے جاؤں تو خوامخواہ لمبے دلائل دے کر ججوں کو بور کرتا ہوں۔

واقعہ گو ذاتی ہے مگر کلبھوشن کیس سے یاد آیا۔ بہت سے دوستوں کو اعتراض ہے کہ خاور قریشی فقط چالیس منٹ بول کر ہی بیٹھ گئے۔ شیری رحمان نے تو ان کو یوں پیش کیا جیسے وہ لاہور کچہری کا وکیل ہو۔ آپ کو شاید علم نہ ہو کہ پاکستان میں اپنے نام کے ساتھ بیرسٹر لگانے والے نوے فیصد لوگ بار ایٹ لا ہیں بیرسٹر نہیں۔ قریشی اصل بیرسٹر ہیں، لندن میں پریکسٹس کرتے ہیں، کوئین کونسل ہیں جسے سلک ملنا کہتے ہیں اور چند پاکستانی نژاد بیرسٹرز میں سے ہیں جن کو سلک ملا۔ اس کے علاوہ قریشی بہت سی حکومتوں کو ریپریزنٹ کرتے ہیں عدالتوں میں، سو قابل وکیل ہیں۔ قریشی کو جو بریف حکومت پاکستان کی طرف سے ملا، وہ اسی تک رہ سکتے تھے اور اس کے اندر جو دلائل ممکن تھے وہ انھوں نے دئیے۔ سو موکل کے کمزور کیس یا بدنیتی کا ذمہ دار قریشی کو نہیں بنانا چاہیے۔

کلبھوشن مجوزہ طور پر ایک انڈین ایجنٹ ہے جو گرفتار ہوا، ملٹری عدالت نے اسے سزا سنائی۔ بھارت قونصلر ایکسس کو بہانہ بنا کر عالمی عدالت انصاف میں گیا جہاں اسے وہ ریلیف مل گیا جو وہ چاہتا تھا۔ ایک تو یہ یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں عالمی عدالت کی جیورسڈکشن ماننے کے معاہدے پر دستخط کنندہ ہیں۔ مگر مارچ دو ہزار سترہ میں پاکستان نے ترمیم کرتے ہوئے ملکی سلامتی کے معاملات کو اس جیوریسڈکشن سے نکال دیا تھا۔ اس کے باوجود، یہ ایک اہم سوال ہے کہ پاکستان عالمی عدالت میں گیا ہی کیوں؟ پاکستان اگر عالمی عدالت میں اس معاملے کو عدالتی جیوریسڈیکشن ماننے سے انکار کرتے ہوئے پیش ہی نہ ہوتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ مگر اب پاکستان پیش ہوا، عدالت کے فیصلے کے احترام کی یقین دہانی کرائی اور دلائل دئیے۔ چنانچہ اب جو بھی فیصلہ ہے وہ پاکستان کو ماننا ہے۔ کچھ تبصرہ نگاروں کا خیال کہ ماننا ضروری نہیں، غلط ہے۔ عالمی عدالت کا فیصلہ نہ ماننے کے نتیجہ میں ہم عالمی طور پر تنہا ہوں گے اور ہم پر پابندیوں کا بھی خطرہ ہو گا۔ ویسے بھی پاکستان موجودہ حالات میں تنہائی و بدنامی برداشت نہیں کر سکتا۔

کیس کا ایک اہم نکتہ موت کی سزا اور وہ بھی پاکستان کی فوجی عدالت سے ہے۔ یورپ میں سزائے موت کو برا سمجھا جاتا ہے، فوجی عدالت کو برا سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی سفارتی اور معاشی پوزیشن پاکستان سے زیادہ مستحکم ہے۔ چنانچہ ایسا ہی فیصلہ متوقع تھا۔ پاکستان کو پہلے ہی سے یہ اندازہ تھا کہ پھانسی پر سٹے ہو گا اور اسی لئیے پاکستان خود کہتا رہا کہ اگست تک تو ویسے ہی پھانسی نہیں دینی۔ ایک نہایت اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت کی استدعا میں یہ شامل ہے کہ قانونی مدد کی فراہمی کے بغیر ایک خفیہ کارروائی میں دی گئی سزائے موت ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ عدالت کا آخری فیصلہ یہ ہی ہو گا کہ مقدمہ اوپن، قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے، قانونی سفارتی مدد کی موجودگی میں دوبارہ چلایا جائے اور سزائے موت سے گریز کیا جائے۔ یقینا ً بھارت کے پاس یہ اچھا موقع ہے خوشی کے شادیانے بجانے کا اور وہ دل بھر کر بجائے گا۔

لیکن صاحبو! شر میں سے خیر بھی برآمد ہوتا ہے۔ شاید آپ کے علم میں ہو کہ بھارت پاکستان کے ساتھ ہر قضئے میں یہ دلیل دیتا رہا کہ یہ باہمی مسئلہ ہے اور کسی انٹرنیشنل فورم کو اختیار نہیں کیونکہ پاکستان اور بھارت”بائی لیٹرل معاہدوں” پر دستخط کر چکے۔ سن اکہتر کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ بھارت دونوں ملکوں کا کوئی مسئلہ عالمی فورم پر لے گیا ہے۔ ایک تو بھارت نے اپنے سامنے تعمیر کی دیوار خود گرا دی ہے اور اب ہمارا عالمی عدالت آنا جانا لگا رہے گا۔ دوسرا یہ کیس تو شاید ہم کو ہارنا ہی ہے، مگر اس موقع کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے ہمیں، اگر کلبھوشن واقعی دہشت گرد تھا اور ثبوت ناقابل تردید ہیں، بھارت کو عالمی فورم پر بھرپور ننگا کرنا چاہیے اور عالمی میڈیا میں اس کیس کو زیادہ سے زیادہ اچھالنا چاہیے۔

جنگ اور مقدمہ بازی کبھی کسی مسئلہ کا حل نہیں ہوتی۔ کلبھوشن کی پھانسی دونوں ملکوں کے تعلقات میں بگاڑ میں فقط اضافہ ہی کرتی۔ بہتر ہو گا کہ اس موقع کو مختلف سفارتی کامیابیوں کے لیے استعمال کیا جائے اور اپنے پتے نہایت احتیاط سے کھیلے جائیں۔

آخر میں اپنے قارئین کے لیے دو سوال؛
۱- ہندوستانی وکیل نے تو ایک روپیہ فیس لی، اشتر اوصاف کے ہوتے پیش ہونے والے قریشی نے کتنی لی؟
۲- احمر بلال صوفی نے پہلے ہاں کر کے بعد میں کیس لڑنے سے انکار کیوں کر دیا؟

( انعام رانا ,ماہر قانون, جولیا اور رانا سولیسیٹرز, لندن, چیف ایڈیٹر مکالمہ ڈاٹ کام )

اپنا تبصرہ بھیجیں