موجودہ حالات میں سب سے زیادہ پریشانی مسلم لیگ ن کو ہے ان کے گھر سے ان کے پاوں تلے سے زمین کھسک رہی ہے مسلم لیگ پنجاب بیسڈ جماعت ہے اور پنجاب میں تحریک انصاف گھر کر چکی ہے تبدیلی کی ہوا نے سارے قلعے زمین بوس کر دیے ہیں موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ن کی بقا کو شدید خطرات لاحق ہیں وہ اسی خوف کے باعث کہ اگر انتخابات ہو گئے تو ہمارا کیا بنے گا ہر جائز ناجائز کام کرنے پر تلی ہوئی ہے پیپلزپارٹی سندھ میں کسی حد تک اپنے آپ کومحفوظ سمجھتی ہے لیکن اس کو اصل دکھ یہ ہے کہ میثاق جمہوریت کی روح سے پچھلی باری ان کی تھی وہ عمران خان لے گیا اب کی باری اگر پھر نہ ملی تو ان کو بڑے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا آصف علی زرداری پوری طرح سے بلاول کو تیار کیے بیٹھے ہیں لیکن پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں پیپلزپارٹی کو پذیرائی نہیں مل رہی مولانا فضل الرحمن کو بھی کسی حد تک یقین ہے کہ بے شک خیبر پختون خواہ میں ان کو حکومت نہ مل سکے لیکن وہ بلوچستان میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور خیبر پختون خواہ میں سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے کوئی دال دلیہ کر لیں گے لیکن المیہ مسلم لیگ ن کے لیے یہ ہے کہ اگر پنجاب میں عمران خان کو نہ روکا گیا تو وہ کہیں کے نہیں رہیں گے میاں شہباز شریف وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے کاغذی صدر ہونے کے باوجود آج بھی مسلم لیگ ن کو لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف چلا رہے ہیں میاں نواز شریف بڑی دیر سے خاموش سیاست کر رہے تھے لیکن تمام اہم فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے تھے لیکن اب جب انھیں ن لیگ کی سیاست ڈوبتی ہوئی نظر آ رہی ہے تو وہ براہ راست معاملات میں کود پڑے ہیں عدالتی محاذ آرائی کا انھیں پہلے سے تجربہ ہے اب وہ خم ٹھوک کر میدان میں آگئے ہیں انھوں نے عدلیہ کے ساتھ لڑائی کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے سپریم کورٹ پر دباو بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ سےقرار دادوں پر قرار دادیں منظور کروائی جا رہی ہیں وفاقی کابینہ نے بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ اب چیف جسٹس آف پاکستان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے پی ڈی ایم سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے آئینی ضابطوں کے مطابق حکومت کی قراردادوں اور تین چار کی بحث کا نہ کوئی اخلاقی جواز ہے نہ کوئی قانونی جواز پیدا ہوتا ہے لیکن حکومتی اثر ورسوخ سے عدالتی معاملات کو متنازعہ بنایا جا رہا ہے حکومت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد چیف جسٹس سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرکے تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انھیں قوتوں کا اعتماد حاصل ہے حالانکہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے اعلامیہ میں کہیں عدالتی معاملے کا ذکر تک موجود نہیں حکومت عدالتی اصلاحات کا قانون لا کر چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے جا رہی ہے فی الحال تو صدر مملکت نے نظرثانی کے لیے بل واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے۔
اب اگر پارلیمنٹ دوبارہ بل پاس کرکے صدر کے پاس بھیجتی ہے تو صدر دستخط کریں یا نہ کریں دس دنوں کے بعد ازخود قانون بن جائے گا لیکن اس معاملہ میں صدر مملکت کے پاس ایک اور آپشن بھی موجود ہے صدرمملکت اس کا ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ کو بجھوا سکتے ہیں اور اس پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کر سکتے ہیں اب حکومت صدارتی اختیارات پر بھی قدغن لگانے کا سوچ رہی ہے حکومت انتخابات کی تاریخ دینے کے اختیارات صدر سے لے کر الیکشن کمیشن کو دینا چاہ رہی ہے غرضیکہ حکومت ہر جائز ناجائز طریقے سے الیکشن کو ملتوی کروانا چاہتی ہے اگر اس معاملے میں انھوں نے سپریم کورٹ سے متھا لگا لیا ہے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان کی بازی لگا کر انتخابات کو التواء میں رکھنا چاہتے ہیں حکمرانوں کی خواہش ہے کہ یا تو عدالت ہمیں توہین عدالت میں سزا سنا دے اور ہم عوام کے سامنے مظلوم بن کر جائیں اور ہمارے ہاتھ ایک بیانیہ آجائے کہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا پھر حالات اتنے خراب کر دیے جائیں اداروں کے ساتھ لڑائی کو اس نہج تک پہنچا دیا جائے کہ تیسری قوت کے آنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ رہے اب سمجھ آرہی ہے کہ کچھ عرصہ سے عدالتی شخصیات کو کیوں رگیدا جا رہا تھا حکومت کی اتنی تگ ودو پر سوال اٹھتا ہے کہ کیا حکومت صرف تین چار ماہ کے اقتدار کےلیے یہ سارا کچھ کر رہی ہے عقل یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ حکومت اتنے بڑے بڑے رسک تین ماہ کے لیے لے رہی ہے حکومت کے پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں انتظار نئے چیف جسٹس کا ہو رہا ہے اور حکومت اپنی معینہ مدت پر بھی الیکشن کے لیے تیار نہیں حکومت عمران خان کو اپنی مرضی کے جج لا کر فکس کرنا چاہتی ہےلیکن وہ عوام کا کیا کریں گے جب تک عوام میں قبولیت نہیں ہو گی اس وقت تک سب حربے فضول ہیں حکومت اپنے ایک سالہ دور میں عوام کے دل موہ لینے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے مہنگائی، بے روزگاری، افراتفری اور غیر یقینی کی فضا نے حکومت کی رہی سہی قبولیت کو بھی متاثر کر دیا ہے اب چار ماہ میں کوئی ایسا الہ دین کا چراغ نہیں جس کو رگڑنے سے عوام کو مطمئن کیا جا سکے عوام کی پریشانیوں میں ہر گزرتے لمحات میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے میں زیادہ دیر تک جگاڑ لگا کر معاملات نہیں چلائے جا سکتے عوامی حمایت کے بغیر حکومتیں نہیں چلا کرتیں حکومت عوامی حمایت کے بغیر اقتدار پر قابض ہے پی ڈی ایم سپریم کورٹ کے فل بنچ کا بڑے زور وشور کے ساتھ مطالبہ کر رہی ہے اور سپریم کورٹ کی اجتماعی دانش کی بات کرتی ہے وہ سب سے بڑی عدالت عوام کی عدالت میں جانے سے کیوں گھبراتے ہیں وہ 23 کروڑ عوام کا بنچ کیوں نہیں بننے دے رہے جائیں عوام میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونے دیں