221

صرف اقتدار چاہئے

بورس جانسن نے جب پہلی بار برطانوی وزیر اعظم کا منصب سنبھالا تھا تو بہت سے پاکستانی تارکین وطن اس بات پر سرشار تھے کہ یونائیٹڈ کنگڈم کے پرائم منسٹر کے آباؤاجداد کا تعلق ترکی سے تھا اور ان کے پردادا مسلمان تھے۔ اسی طرح کی خوشی کا اظہار اس وقت بھی کیا گیا تھا جب باراک حسین اوبامہ امریکی صدر کے عہدے پر فائز ہوئے اور ان کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا رہا کہ ان کے والد اور دادا مسلمان تھے۔ اب جبکہ رشی سونک برطانوی وزیر اعظم بنے ہیں تو یوکے اور دنیا بھر میں آباد ہندو کمیونٹی اس انتخاب پر خوشیاں منا رہی ہے۔ امریکہ ہو یا برطانیہ ان ملکوں میں صدارت اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ملتا ہے اور جو لوگ بھی اس منصب کے اہل قرار پاتے ہیں وہ کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں کر سکتے جو قانون آئین اور ضابطے کے خلاف ہو۔ برطانوی وزیر اعظم کا تعلق چاہے کسی بھی رنگ، نسل اور مذہب سے ہو اُسے صرف اور صرف اسی پالیسی کو ملحوظ خاطر رکھنا پڑتا ہے جو ملک اور قوم کے مفاد میں ہو۔ اس لئے کسی مسلمان یا ہندو کے برطانوی وزیر اعظم بننے پر یہ تصور کر لینا کہ وہ برطانیہ کے مفادات کی بجائے مسلمانوں یا ہندوؤں کے مفادات کا زیادہ خیال رکھے گا محض ایک خوش فہمی ہے۔ جس طرح جارج بش کے بعد بارک اوبامہ، ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن کے امریکی صدر بننے پر ان کی پالیسی میں رتی برابر تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ یعنی ان تمام ادوار میں امریکہ بھرپور طریقے سے اسرائیل کی غیر مشروط حمایت کرتا اور مسلمانوں کو جارحیت کا نشانہ بناتا رہا۔ اسی طرح ٹونی بلیئر کے بعد تمام برطانوی وزیر اعظم اسرائیل کے شدید حامی رہے اور رشی سونک بھی اسی پالیسی پر عمل پیرا رہے گا۔ ترقی یافتہ اور خوشحال ملکوں کے وزیر اعظم بدلتے رہتے ہیں لیکن ان کی وہ پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں جو ملک و قوم کے مفاد میں ہوں۔ اگر ہم اسی تناظر میں پاکستان کے سیاسی حالات کا جائزہ لیں تو بہت حیرانی ہوتی ہے کہ وزیرا عظم کی تبدیلی کے ساتھ ہی وطن عزیز میں ہر پالیسی تبدیل ہو جاتی ہے۔ برسراقتدار آنے والی ہر سیاسی جماعت اپنا نیاایجنڈا لے کر آتی اور اس کے مطابق ملک کو چلانے بلکہ تجربات کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں ملک و قوم کے مفادات ثانوی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں۔ برطانیہ میں رشی سونک کا وزیرا عظم بننا اس بات کی دلیل ہے کہ اس ملک میں سیاست سمیت ہر شعبے میں میرٹ اور انصاف کو سب سے زیادہ اہمیت اور اولیت دی جاتی ہے۔مثال کے طور پر سعیدہ وارثی (سابق چیئرمین ٹوری پارٹی) ہوں یا صادق خاں میئر آف لندن انہیں یہ عہدے اور منصب صرف اور صرف ان کی قابلیت اور میرٹ کی وجہ سے ملے۔ رشی سونک کے وزیر اعظم بننے پر ایک دلچسپ حقیقت یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ان کے آباؤاجداد کا تعلق پاکستان کے شہر گوجرانوالہ سے رہا ہے اس لئے گوجرانوالہ کے لوگ بھی نئے برطانوی وزیر اعظم کو مبارکباد دینے اور خوشی کا اظہار کرنے میں پیش پیش ہیں۔ برطانیہ میں گذشتہ چند ماہ کے دوران ٹوری پارٹی کے تین وزیر اعظموں کی تبدیلی کو بھی ملک میں سیاسی عدم استحکام قرار دیا جا رہا ہے جس کا براہ راست اثر برطانیہ کی معیشت پر پڑا ہے۔ لزٹرس اس عزم کے ساتھ وزیر اعظم بنیں تھیں کہ ملک کو معاشی بحران سے نکالیں گی لیکن 45روز بعد ہی انہوں نے یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔ رشی سونک چونکہ ملک کے چانسلر (وزیر خزانہ) رہے ہیں اس لئے وہ ملک کی معیشت کے بارے میں زیادہ بہتر ادراک رکھتے ہیں اور برطانیہ کے معاشی حالات کی بہتری کے لئے اپنی اہلیت اور قابلیت کو بروئے کار لائیں گے۔ حزب اختلاف کے رہنما اور لیبر پارٹی کے لیڈر کیئر سٹارمرکا مسلسل یہ مطالبہ ہے کہ فوری طور پر ملک میں عام انتخابات کروائے جائیں کیونکہ ٹوری پارٹی منتشر ہو چکی ہے۔ اس کی قیادت برطانیہ کو معاشی بحران سے نکالنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔یہی وجہ ہے کہ وہ گذشتہ چند ماہ کے دوران تین وزرائے اعظم کو آزما چکی ہے لیکن کوئی بھی عوامی مسائل کے حل کی راہ ہموار نہیں کر سکا۔ ان کا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں صرف لیبر پارٹی ہی ملک کو اقتصادی اور سیاسی بحران سے نکال سکتی ہے۔ کرونا وائرس کی وبا کے بعد سے ٹوری پارٹی اپنے 5چانسلرز آف ایکس چیکرز کو تبدیل کر چکی ہے جن میں ایک پاکستانی نژاد ساجد جاوید بھی شامل تھے۔ برطانیہ میں سیاسی جماعتیں اپوزیشن میں رہ کر نہ صرف اپنے ووٹرز کو حکومت کی کوتاہیوں، کمزوریوں اور غلط حکمت عملی سے آگاہ کرتی رہتی ہیں بلکہ اس دوران اپنی شیڈو کابینہ کے ذریعے ہر شعبے میں بہتری کے لئے قابل عمل پالیسی بھی ترتیب دیتی رہتی ہیں تاکہ اگر کل کو انہیں حکومت اور اقتدار ملے تو ان کے پاس ایک ایسی ٹیم ہو جو نہ صرف عوام کی توقعات کو پورا کر سکے بلکہ ملک کو گذشتہ حکومت کے مقابلے میں بہتر طور پر چلا سکے۔ اس وقت ریچل ریوز RACHEL REEVESلیبر پارٹی کی شیڈو چانسلر ہیں جو اس سے پہلے ورک اینڈ پنشن کی بھی شیڈو منسٹر رہ چکی ہیں۔ وہ لندن سکول آف اکنامکس اور آکسفورڈ کی تعلیم یافتہ ہیں۔وہ 1979ء میں لندن کے علاقے لیوشم میں پیدا ہوئیں اور لیڈز سے 2010ء سے مسلسل برطانوی پارلیمنٹ کی رکن منتخب ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ وہ ایک قابل ماہر معاشیات ہیں۔ اگر آئندہ عام انتخابات کے بعد لیبر پارٹی کو اقتدار ملا تو وہ برطانیہ کی چانسلر یعنی چیف فنانشل منسٹر ہوں گی۔ اسی لئے وہ ابھی سے ملک کی بہتر معاشی پالیسی کے لئے اپنا ہوم ورک اور تیاری کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ جس طرح برطانیہ میں اپوزیشن لیڈر کیئر سٹارمر فوری طور پر ملک میں عام انتخابات کا مطالبہ کر رہے ہیں اسی طرح پاکستان میں اپوزیشن لیڈر اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بھی پاکستان میں فوری عام انتخابات کا مطالبہ اورلانگ مارچ کر رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ عمران خان کا پورا زور صرف زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس لانگ مارچ اور احتجاج کے لئے جمع کرنا ہے جبکہ برطانیہ میں حزب اختلاف کے رہنما اپنی ایسی ٹیم اور پالیسی تیار کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو کل کو حکومت ملنے پر ملک و قوم کو اقتصادی بحران سے نکال سکے۔ اگر ہم فرض کر لیں کہ آئندہ عام انتخابات میں عمران خان واضح اکثریت سے کامیاب ہو کر اقتدار حاصل کر بھی لیں تو کیا ان کے پاس ایسی کوئی ٹیم یا شیڈو کابینہ ہے یا انہوں نے ایسے ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں جو پاکستان کو شدید معاشی بحران سے نکال سکیں گے۔ بیرونی قرضوں سے نجات کے لئے کوئی ٹھوس پالیسی بنا سکیں گے۔ ملک میں خطرناک حد تک بڑھنے والی تیز رفتار آبادی کو کنٹرول کر سکیں گے۔ مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری اور انتہا پسندی پر قابو پا سکیں گے۔ بجلی، گیس، صحت اور تعلیم کے سنگین مسائل کو حل کر سکیں گے۔ انصاف کی بالادستی کو یقینی بنا سکیں گے۔ ان سب مشکلات سے نمٹنے اور مسائل کو حل کرنے کے لئے عمران خان کے پاس نہ تو کوئی ٹیم ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں انہوں نے کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی ترتیب دے رکھی ہے۔ انہیں بھی پاکستان کے دوسرے سیاستدانوں کی طرح صرف اور صرف اقتدار اور اختیار چاہئے۔ وہ بھی اقتدار سے محروم ہو کر اسی طرح تڑپ رہے ہیں جس طرح دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما تڑپتے رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کا پیٹ صرف لفظی وعدوں سے نہیں بھرتا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ برطانوی سیاستدانوں اور خاص طور پر حزب اختلاف سے سبق حاصل کریں۔ اپوزیشن میں رہ کر پاکستان کے سنگین مسائل کے حل کے لئے ٹھوس اور قابل عمل پالیسی بنائیں۔ ایسے ماہرین کی ٹیم تیار کر کے پارلیمنٹ میں لائیں جو واقعی ملک اور قوم کو خطرناک بحران سے نجات دلانے کی اہلیت رکھتی ہو۔ اگر پھر سے اقتدار میں آ کر آئی ایم ایف کے ہی منت ترلے کرنے ہیں تو اس سے بہتر ہے کہ سیاسی خودکشی کر لی جائے۔

٭٭٭٭٭٭