آج کے حالات پر رونا آتا ہے ہر محب وطن ذی شعور شہری حالات کی سنگینی پر تشویش میں مبتلا ہے اقتدار کی چھینا جھپٹی ہمیں کہاں لے آئی ہے اور نہ جانے کہاں لے جائے گی سیاست کے بدمست ہاتھی سب کچھ روندے چلے جا رہے ہیں نگوڑی سیاست نے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے سپریم کورٹ تنازعات کا شکار ہے ہمارے ہاں ہر چیز کو متنازعہ بنانے کی روایت چل پڑی ہے چیف جسٹس آف پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے توہین عدالت کے ڈر کی وجہ سے اور عدلیہ کی تکریم کے باعث لکھتے وقت بہت سے الفاظ کی قربانی دینی پڑ رہی ہے ورنہ جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے اندھوں کو بھی پتہ چل رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے کس کا کیا کردار ہے اور اس سارے گند سے کس کو کیا فائدہ ملے گا جرائم کی دنیا میں ایک اصطلاح استعمال کی جاتی ہے کہ جرم کا بینفشری کون ہے کیونکہ بعض اوقات جرم کسی اور کے ہاتھوں سرزد ہو رہا ہوتا ہے اس کا فائدہ کوئی اور اٹھا رہا ہوتا سپریم کورٹ کے پیدا شدہ حالات اور ججز کی تقسیم کا بینفشری کون ہے اس سے سارا کچھ واضح ہو جاتا ہے سپریم کورٹ پر ایک بار پھر شب خون مارا جا رہا ہے لگتا ہے تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے 1997، 98 والے حالات پیدا ہو چکے ہیں اگلے دو تین دن بہت اہم ہیں لیکن کیا یہ حسن اتفاق ہے کہ اس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور میاں نواز شریف وزیر اعظم تھے آج پی ڈی ایم کی اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن سربراہی ن لیگ کے پاس ہے اس وقت بھی سپریم کورٹ میں ایسی ہی تقسیم پیدا ہو گئی تھی جس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑا تھا اور تقسیم کرنے والوں کے ہاتھ میں بھی کچھ نہ آیا تھا آج بھی حالات اسی طرح کے ہیں یہ حالات منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے گئے ہیں نہ جانے آج پارلیمنٹ میں عدلیہ کو کیوں رگیدا جا رہا ہے آج پارلیمنٹ کو اعلی عدالتوں میں پینڈنگ کیس بھی یاد آرہے ہیں اور سپریم کورٹ کے آڈٹ کی بھی بات کی جا رہی ہے ججز کی آڈیو ویڈیو بھی منظر عام پر لائی جا رہی ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد ہو گا یہ سارا کھیل خاص حلقوں میں کھیلا جا رہا ہے لیکن اس کے ذریعے ایک عوامی تاثر پیدا کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے عدالتوں کو ماضی کے کیسوں کی سزا دی جا رہی ہے صحافی معاشرے کا نباض ہوتا ہے اس وقت عوام کی جانب سے جو فیڈ بیک مل رہا ہے اس کے مطابق عمومی طور پر عوام میں یہ تاثر جا رہا ہے کہ یہ سارا کچھ انتخابات کے التواء کو برقرار رکھنے کے لیے کیا جا رہا ہے اور دوسرا عدالتی اصلاحات کا بل جسے پارلیمنٹ منظور کر چکی ہے اس کے لاگو ہونے تک معاملات کو التواء میں رکھنے کے لیے سارا کچھ کیا ہو رہا ہے اس بارے میں بل اب ایوان صدر میں صدر مملکت کے پاس منظوری کے لیے پڑا ہے صدرمملکت کے پاس تین آپشن ہیں ایک وہ اس پر دستخط کر دیں اور یہ قانون فوری نافذ العمل ہو جائے دوسرا وہ 14 دن تک اپنے پاس رکھ کر نظرثانی کے لیے واپس بھیج دیں اس پر پارلیمنٹ اگر دوبارہ اسے پاس کرکے صدر کو بجھوا دیتی ہے تو صدر زیادہ سے زیادہ 10 دن تک اسے اپنے پاس رکھ سکتے پھر وہ دستخط کریں یا نہ کریں وہ قانون بن جائے گا لیکن اس معاملہ میں صدر کے پاس ایک تیسرا آپشن بھی موجود ہے صدرمملکت اس کا ریفرنس بنا کر سپریم کورٹ کو بجھوا سکتے ہیں اور سپریم کورٹ کی اس پر رائے حاصل کر سکتے ہیں چونکہ یہ عدلیہ کے اختیارات کا معاملہ ہے اس لیے اسے سپریم کورٹ بجھوایا جا سکتا ہے لیکن اس سے پہلے کے یہ معاملہ سپریم کورٹ کی موجودہ قیادت کے سامنے آئے اس سے پہلے کچھ کر گزرنے کی کوشش تیز ہو چکی ہے اور سپریم کورٹ میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے پاکستان کی سب سے بڑی عدالت بکھر کر رہ گئی ہے کچھ لوگوں نے خواہشات کی تکمیل کے لیے سپریم کورٹ میں، سن،لگا لی ہے اللہ ہی خیر کرے
222