اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک آج بھی ہے
اس کو حالانکہ مرے پیار پہ شک آج بھی ہے
ناؤ میں بیٹھ کے دھوئے تھے کبھی ہاتھ اس نے
سارے تالاب میں مہندی کی مہک آج بھی ہے
میری اک شرٹ میں کل اس نے بٹن ٹانکا تھا
شہر کے شور میں چوڑی کی کھنک آج بھی ہے
اسے کھو کر بھی نہ کھونے کی خوشی اب نہ رہی
اسے پا کر بھی نہ پانے کی کسک آج بھی ہے
زخم سب سوکھ گئے ہیں مرے مرہم کے بنا
میرے اک دوست کی مٹھی میں نمک آج بھی ہے
(غزلستان برار)