128

اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک آج بھی ہے

اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک آج بھی ہے
اس کو حالانکہ مرے پیار پہ شک آج بھی ہے

ناؤ میں بیٹھ کے دھوئے تھے کبھی ہاتھ اس نے
سارے تالاب میں مہندی کی مہک آج بھی ہے

میری اک شرٹ میں کل اس نے بٹن ٹانکا تھا
شہر کے شور میں چوڑی کی کھنک آج بھی ہے

اسے کھو کر بھی نہ کھونے کی خوشی اب نہ رہی
اسے پا کر بھی نہ پانے کی کسک آج بھی ہے

زخم سب سوکھ گئے ہیں مرے مرہم کے بنا
میرے اک دوست کی مٹھی میں نمک آج بھی ہے

(غزلستان برار)