Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
392

شب برات کی اہمیت و فضیلت اور وضائف۔ Importance of Shab e Barat

حمO وَالْكِتَابِ الْمُبِينِO إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍO أَمْرًا مِّنْ عِندِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَO رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُO رَبِّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُم مُّوقِنِينَO لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ رَبُّكُمْ وَرَبُّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَO
(الدخان : 44، 1 تا 8)

’’حٰم، اس روشن کتاب کی قسم بے شک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بے شک ہم ڈر سنانے والے ہیں۔ اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ ہماری بارگاہ کے حکم سے، بے شک ہم ہی بھیجنے والے ہیں۔ (یہ) آپ کے رب کی جانب سے رحمت ہے، بے شک وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے درمیان ہے (اسکا) پروردگار ہے، بشرطیکہ تم یقین رکھنے والے ہو اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی دیتا اور موت دیتا ہے (وہ) تمہارا (بھی) رب ہے اور تمہارے اگلے آباؤ اجداد کا (بھی) رب ہے‘‘۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شعبان شھری و رمضان شھر اللہ (شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے) مزید فرمایا کہ جو شعبان میں اچھی تیاری کرے گا اسکا رمضان اچھا گزرے گا اور وہ ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں سے لطف اندوز اور بہرہ مند ہوگا۔ شعبان المعظم کا پورا ماہ بابرکت و باسعادت اور حرمت و تعظیم والا مہینہ ہے لیکن اس مہینہ کو بطور خاص کچھ فضیلتیں، امتیازات اور شرف عطا کئے گئے، یہ مہینہ ’’شہر التوبہ‘‘ بھی کہلاتا ہے اس لئے کہ توبہ کی قبولیت اس ماہ میں بڑھ جاتی ہے۔ اس ماہ میں مسلمانوں پر برکتوں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے یہ ماہ اس کا حقدار ہے کہ دیگر مہینوں سے بڑھ کر اس میں اللہ کی اطاعت و عبادت اختیار کی جائے۔

 بزرگانِ دین نے فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنی جان کو اس مہینہ میں ریاضت و محنت پر تیار کر لیں گے وہ ماہ رمضان المبارک کی جملہ برکتوں اور سعادتوں کو کامیابی کے ساتھ حاصل کریں گے۔ اس بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ماہ رمضان کے بعد سال کے 12 مہینوں میں سب سے زیادہ روزے اس ماہ رکھتے تھے۔ اس ماہ کی ایک خاص امتیازی خصوصیت 15 شعبان المعظم کی رات ہے۔ اس رات کو اللہ نے ’’لیلۃ مبارکہ‘‘ ’’برکت والی رات‘‘ کہا ہے۔ علماء، مشائخ، آئمہ، مفسرین کی اکثریت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ شب قدر کے بعد سال کے 12 مہینوں میں سب سے زیادہ افضل شب برات ہے۔ ارشاد فرمایا فِیھَا یُفرَقُ کُلُّ اَمرٍ حَکِیمٍ۔
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتا ہے‘‘۔ یعنی تمام حکمت والے، فیصلہ کن، نافذ العمل ہونے والے امور کی تنفیذ کا فیصلہ اس رات کیا جاتا ہے۔ حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’جب 15 شعبان کی رات آتی ہے تو اللہ تعالیٰ ملک الموت کو اگلے سال کے لئے موت وحیات کے امور نفاذ و اجراء کے لئے سپرد فرما دیتے ہیں‘‘۔ بعض اذہان میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس رات تقدیریں، رزق، موت و حیات کے فیصلے لکھے جاتے ہیں تو لوح محفوظ پر جو سب کچھ پہلے ہی لکھا جا چکا ہے اس کا معنی کیا ہے؟

دونوں باتوں میں مطابقت یہ ہے کہ اللہ کے علم میں تو سب کچھ پہلے سے ہی آ گیا ہے اور سب کچھ پہلے ہی سے آ جانا یہی اس کی لوح محفوظ ہے۔ اس کی لوح، اسکا علم ہے۔ اس رات لکھے جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان امور کو نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’کہ کچھ لوگ ایسے ہیں کہ 15 شعبان المعظم کی رات بھی اپنے ظلم میں مصروف ہوتے ہیں یا ظلم و ستم ڈھانے کے لئے منصوبے بنا رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان کا نام مرنے والوں کی فہرست میں آ چکا ہوتا ہے‘‘۔

الغرض افراد ایسے منصوبہ جات میں مصروف ہوتے ہیں جن کے نتائج سالوں بعد ظاہر ہوتے ہیں حالانکہ اس اگلے سال میں ان کی موت لکھ دی جاتی ہے۔ یعنی ہر امر الہٰی نفاذ کے لئے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ اس کی مثال آپ بجٹ کی لے لیں کہ بجٹ کی منظوری تو یکبار ہو جاتی ہے مگر اسکا نفاذ پورے سال میں مختلف اوقات میں ہوتا رہتا ہے۔ اس طرح اللہ کے ہاں بھی ہمارا بجٹ پیدائش سے موت تک ہماری پیدائش سے پہلے ہی تیار ہوتا ہے اور یہ سب کچھ علم الہٰی میں آچکا ہوتا ہے اور یہی لوح محفوظ پر لکھا جانا کہلاتا ہے۔ پھر ہر سال کے حساب سے یہ احکامات نفاذ کے لئے اس 15 شعبان المعظم کی رات جاری کر دیئے جاتے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس نے پہلے ہی فیصلہ کر رکھا ہے تو اس رات سپرد کرنے کی بات کو ذکر کیوں کیا؟ جب کمی بیشی نہیں ہونی اور فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو اس رات کو ہونے والے امور کا ذکر کرنے کی کیا حاجت تھی؟ درحقیقت یہ اظہار دنیاوی حکمرانوں اور ساری کائنات کے حکمران میں فرق کو واضح کرتا ہے کہ ہمارے وسائل محدود ہیں لیکن اللہ کے وسائل محدود نہیں ہیں بلکہ اس کی نعمتیں، رحمتیں لامحدود ہیں اس کا اپنا فرمان ہے وسعت رحمتی کل شیء ’’میری رحمت ہر شے پر وسیع ہے‘‘ اللہ کے اس رات کو Disclose کرنے کی حکمت اصل میں ’’ترغیب و ترہیب‘‘ ہے۔ جب اللہ نے یہ بتا دیا کہ آج کی رات سب احکامات تنفیذ کے لئے سپرد کئے جا رہے ہیں تو ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ اگرچہ یہ میرا طے شدہ بجٹ ہے مگر یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ میں نہ صرف لوح محفوظ والا ہوں بلکہ لوح محفوظ کا مالک بھی ہوں، اگر کوئی اس رات سچے دل سے گڑگڑا کر رو پڑے تو میں لکھا ہوا مٹا بھی دیتا ہوں اور نہ لکھا ہوا ہو تو لکھ بھی دیتا ہوں۔ پس اگر ردوبدل کا امکان نہ ہوتا تو اس رات کا ذکر نہ کیا جاتا۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا دو چیزیں تقدیر کو بدل دیتی ہیں۔ لایرد القضاء الا بالدعا والصدقہ۔ ’’تقدیر نہیں بدلی جاتی مگر دعا اور صدقہ سے‘‘۔ گویا اس رات کا بنایا جانا اس کے کرم کی بدولت ہے کیونکہ اگر اس رات کچھ ردوبدل نہ ہو سکتا ہوتا تو رات بتائی ہی نہ جاتی۔ اللہ نے لیلۃ القدر عطا فرمائی تو اس کو 5 طاق راتوں میں چھپا کر رکھا کیونکہ لیلۃ القدر مرتبہ میں بقیہ راتوں سے افضل ہے مگر جب یہ رات آئی تو اس کو چھپایا نہ بلکہ سر عام حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعلان کروا دیا کہ اے محبوب امت کو اس رات کی اہمیت کے متعلق بتلا دیں کہ جس نے رب سے جو کچھ لینا ہے، لے لے، جو مانگنا ہے، مانگ لے، اس کا کرم آج نداء دے رہا ہے کہ ہے کوئی گناہوں کو بخشوانے والا، ہے کوئی رحمت کا طلبگار، ہے کوئی رزق، دولت، علم، مانگنے والا کہ اسے عطا کردوں جو کچھ وہ مانگ رہا ہے‘‘۔

لیلۃ القدر مرتبہ میں شب برات سے افضل ہے اس لئے شروع میں اس کو پورے ماہ میں چھپا دیا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے لئے اس رات کی تلاش میں رمضان المبارک کے پورے مہینے میں اعتکاف کیا۔ بعد ازاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پورا ماہ کا اعتکاف بسلسلہ تلاش لیلۃ القدر امت پر گراں محسوس ہونے کا ڈر لگا تو اشارہ ملا کہ رمضان کے آخری 20دنوں میں تلاش کریں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ایک اعتکاف 20 دنوں کا کیا، عرض کیا اے اللہ 20دن کا اعتکاف بھی امت کو پریشان کر دے گا، غفلت کریں گے، مدت کم کردے، فرمایا آخری دس دنوں کا اعتکاف کرلیں پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 10 دن کا اعتکاف بیٹھے اور عرض کیا مولا اعتکاف تو 10 دن بٹھا مگر راتیں 10 پوری کی پوری نہ جگا، ان کو کم کر دے، امت بڑی کمزور ہے، پھر اللہ نے فرمایا کہ اعتکاف تو 10 دن کا ہوگا مگر جاگنے کے لئے راتیں 5 کر دیتا ہوں پس طاق راتوں میں جاگیں اور لیلۃ القدر تلاش کریں۔ پس 15 شعبان المعظم کی رات کو ظاہر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تاکہ امت مسلمہ اللہ سے رزق اور علم کے بڑھنے، آفات کے ٹلنے، دنیا و آخرت بخشش و مغفرت کے حصول اور اپنی بدبختی و شقاوت کو نیک بختی و سعادت سے بدلنے کی دعا مانگ لے۔ اللہ نے لیلۃ القدر کو چھپایا اور ہم اس کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں مگر شب برات کو ظاہر کر دیا لیکن افسوس کہ ہم اس رات کی قدر نہیں کرتے بلکہ اس رات بھی غفلت کا لبادہ اوڑھے سوئے رہتے ہیں۔

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ’’پانچ راتیں ہیں کہ جس نے وہ پانچ راتیں جاگ کر محنت کر لی اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ ان پانچ راتوں میں سے ایک رات 15 شعبان المعظم کی رات ہے‘‘۔

مراد یہ ہے کہ اس رات توبہ، مغفرت کی قبولیت اتنی زیادہ ہے کہ اگر کوئی ان راتوں کو جاگ کر کثرت کے ساتھ گریہ و زاری کرے، صدق و اخلاص نیت کے ساتھ اللہ کے حضور اپنے سارے گناہوں کی توبہ کرلے، طلب مغفرت کرلے اور آئندہ اصلاح کرلے تو پچھلے گناہ اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں مٹا دیئے جاتے ہیں اور جنت کا مستحق بنا دیا جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’پانچ راتیں ایسی ہیں ان میں دعا رد نہیں ہوتی، ان راتوں میں سے ایک رات 15 شعبان المعظم کی رات ہے‘‘۔
اس رات آتشبازی کے مظاہرے اور پٹاخوں کا استعمال حرام ہے۔ یہ رات برات اس لئے کہلاتی ہے کہ یہ دوزخ سے رہائی پانے کی رات ہے کہ جو اس رات اللہ کے حضور روئے گا،گریہ و زاری کرے گا اسے رہائی مل جائے گی۔ اس آتش بازی کے رواج کو سختی سے بند کریں، اپنے علاقوں میں عوام الناس کو اس بات کا شعور دیں کہ یہ حرام کام ہے اس کے کرنے والا گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ’’اس رات اللہ تعالیٰ غروب آفتاب کے بعد اپنی شان کے لائق آسمان دنیا پر آ جاتا ہے اور فجر تک آسمان دنیا پر بندوں کے قریب رہتا ہے اور ساری رات نداء دیتا ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مغفرت مانگنے والا کہ میں اسے معاف کردوں، ہے کوئی مجھ سے رزق مانگنے والا کہ میں اسے رزق دے دوں، ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اس کے سوال پورے کردوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس رات اللہ تعالیٰ چند لوگوں کے سوا ہر مانگنے والے کو عطا کرتا ہے اور بخشش فرماتا ہے۔ چند لوگ اس رات کی دعا سے بھی اور لیلۃ القدر میں بھی نہیں بخشے جاتے۔

وہ درج ذیل افراد ہیں۔
1. مشرک، جب تک شرک نہ چھوڑ دے۔
2. دل میں بغض و عداوت رکھنے والا، گویا جب تک دل کو بغض و عداوت سے پاک نہ کرلے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
3. قاتل
4. خونی رشتوں کو کاٹنے والا، قطع تعلق کرنے والا یہ بات بھی قابل غور رہے کہ ہم دور دراز تو صدقہ و خیرات کرتے ہیں مگر خونی رشتوں کا لحاظ نہیں رکھتے حالانکہ جو جتنا قریبی رشتہ دار ہے اس کا حق بھی زیادہ ہے اور پڑوسی سے بھی مقدم قریبی رشتہ دار کا حق ہے۔
5. تکبر کرنے والا
6. شرابی
7. والدین کا نافرمان
8. چغل خور، غیبت کرنے والا، یہ برائی بھی عام ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہورہی ہے کہ جب اللہ خود نداء دے رہا ہو اس کے باوجود درج بالا افراد کی بخشش نہ ہو تو سال کے بقیہ مہینوں میں ان کی بخشش کس طرح ممکن ہے۔

شب برات کے مسنون وظائف و اعمال اس رات عبادت کرنے کا مسنون طریقہ جو اولیاء، آئمہ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارکہ سنتوں سے اخذ کیا، درج ذیل ہے۔
1. اس رات کے معاملات کی ابتداء تلاوت قرآن سے کی جائے اور سورہ یسٰن کی کم از کم 3 مرتبہ تلاوت کی جائے۔۔۔ سورۃ الدخان کی 3 مرتبہ تلاوت کی جائے، بزرگوں میں سے کئی نے یہ بھی فرمایا کہ اگر کوئی پوری سورۃ کی تلاوت نہ کرسکے تو پہلی 8 آیات کی 30 مرتبہ تلاوت کرے۔
2. کم از کم 100 مرتبہ اور اگر وقت زیادہ ہو تو 1000 مرتبہ دعائے حضرت یونس رضی اللہ عنہ۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنتَ سُبحٰنَکَ اِنِّی کُنتُ مِنَ الظّٰلِمِین۔ یہ دعا اس رات کے لئے بڑی مجرب ہے۔
3. کم از کم ایک تسبیح استغفار اَستَغفِرُاللّٰہَ العَظِیم اَلَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الحَیُّ القَیُّومُ وَاٰتُوبُ اِلَیہ۔
4. کم از کم ایک تسبیح درود پاک
5. اس رات صلاۃ التسبیح کا ضرور اہتمام کریں۔
6. کم از کم آٹھ نوافل قیام اللیل کی نیت سے پڑھیں۔
7. محفل نعت اور بعد ازاں حلقہ ذکر کا انعقاد۔
8. درج ذیل دعا دعائے محمدی ہے کثرت کے ساتھ کریں، نوافل، اور صلاۃ التسبیح کے بعد دعا کریں یہ دعا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو تلقین فرمائی تھی۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ العَفوَ فَاعفُ عَنِّی۔
جن احباب کو یاد ہو سکے وہ پوری دعا درج بالا الفاظ کے بعد اس طرح کریں۔
اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ عَفوَ وَالعَافِیَۃَ وَالمَوَافَاتِ الدَّائِمَۃِ فِی الدِّینِ وَالدُّنیَا وَالآخِرَۃ۔

( شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

اپنا تبصرہ بھیجیں