تیس برس پہلے برطانیہ میں سیاسی پناہ کا حصول بہت آسان تھا۔ دنیا بھر سے غیر قانونی طور پر یونائیٹڈ کنگڈم میں آنے والے تارکین وطن اسائلم کی درخواست دیتے تھے اور ہوم آفس سے انہیں درخواست کی وصولی کا ایک خط موصول ہوتا تھا جس کی بنیاد پر وہ سیاسی پناہ کے لئے ملنے والی ہر سہولت کے حق دار بن جاتے تھے۔ عام طور پر سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے اور اُن کے خلاف اپیل کو نمٹانے میں کئی برس لگ جاتے تھے۔ اس دوران اسائلم سیکرز کی اکثریت برطانیہ میں شادیاں کرنے اور برٹش بورن بچوں کے والدین بن جانے کی وجہ سے یوکے میں قیام بلکہ مستقل قیام کے حقوق حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتے تھے لیکن اِن دنوں برطانیہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونا اور سیاسی پناہ حاصل کرنا بہت دشوار ہو چکا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی یونائیٹڈ کنگڈم ہر طرح کے امیگرینٹس کے لئے بہت پر کشش ملک ہے۔ غریب ملکوں سے انسانوں کی سمگلنگ کرنے والے ایجنٹ برطانیہ کے بارے میں لوگوں کو طرح طرح کے سبز باغ دکھاتے ہیں اور جو غیر قانونی تارکین وطن اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر قسمت سے برطانیہ پہنچ بھی جائیں تو انہیں فاسٹ ٹریک سسٹم کے ذریعے چند ہفتوں بعد ہی ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت یوکے میں تقریباً 8لاکھ غیر قانونی تارکین وطن مقیم ہیں جبکہ 90ہزار سے زیادہ غیر ملکی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے سیاسی پناہ کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں اور اُن پر فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ امیگریشن واچ کی ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے اصل اعداد وشمار کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہے کیونکہ بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے مختلف ملکوں کے لوگوں کی بڑی تعداد بھی غیر قانونی طور پر یونائیٹڈ کنگڈم میں آباد ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن اور اسائلم سیکرز برطانوی معیشت پر بوجھ ہیں۔ اسی لئے برطانیہ میں مختلف حکومتیں گاہے بگاہے غیر قانونی تارکین وطن کے لئے ایمنسٹی سکیم متعارف کراتی رہی ہیں تاکہ وہ قانونی طور پر اس ملک میں رہ کر کام کریں اور ٹیکس ادا کریں۔ 1993ء میں ٹوری پارٹی نے (Exeptional Leave to remain)یعنی ای ایل آر کے نام سے ایک سکیم متعارف کرائی تھی جس سے 32ہزار سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو برطانیہ میں قیام کی اجازت ملی تھی۔ اسی طرح 1999ء میں لیبر پارٹی کی حکومت نے (INDEFINITE LEAVE TO REMAIN) یعنی ILRآئی ایل آر کے نام سے ایمنسٹی سکیم کے ذریعے 30ہزار سے زیادہ غیر قانونی تارکین وطن کو اس ملک میں قانونی طور پر قیام کی اجازت دی تھی جس کے بعد 2003ء میں امیگرینٹس کے اُن خاندانوں کوبھی قانونی قیام کا استحقاق دیا گیا جنہوں نے 2اکتوبر 2000ء سے پہلے اسائلم کی درخواستیں دائر کر رکھی تھیں۔
صرف ایسے غیر قانونی تارکین وطن کی درخواستوں کو مسترد کر کے ملک بدر کیا گیا جو کسی بھی طرح کے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔ غیر قانونی تارکین وطن کی بڑی تعداد ایسی ہے جو برطانیہ پہنچنے کے لئے ایجنٹوں کو اپنی جمع شدہ پونجی اور قرض لی گئی بڑی رقم دیتی ہے لیکن اُن میں سے بہت سے لوگ راستے میں ہی سمندروں کی نذر ہو جاتے ہیں یا پھر یورپ کے کسی اور ملک میں پہنچا دیئے جاتے ہیں۔ برطانیہ پہنچنے کے خواہش مند لاکھوں تارکین وطن ایسے ہیں جو سپین، اٹلی، فرانس، پرتگال، یونان، بیلجیئم یا کسی اور یورپی ملک میں پہنچ کر بے یارومددگار ہو گئے۔ اُن کے ایجنٹ اُن سے رابطے میں نہیں رہے۔ ایسے بہت سے لوگوں کو اِن یورپی ملکوں میں ہی قیام کی اجازت مل گئی جس کے بعد یورپی یونین رائٹ آف فری موومنٹ کی وجہ سے یہ تارکین وطن برطانیہ آ گئے۔ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ملکوں میں جو تارکین وطن غیر قانونی طور پر مقیم ہیں وہ امیگریشن پولیس سے چھپ کر بہت معمولی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں اور انتہائی کسمپرسی کے حالات میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اگر قانون نافذ کرنے والے اداروں یا اہلکاروں کے ہتھے چڑھ جائیں تو ملک بدر کر دیئے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں لیبر حکومت کی پالیسیز کو امیگرینٹس کے لئے بہت سازگار سمجھا جاتا تھا جبکہ کنزرویٹیو پارٹی اس کے برعکس ہے۔ سابق ہوم سیکرٹری پریتی پٹیل نے اسائلم سیکرز کو روانڈا بھیجنے کی جو پالیسی اپنائی تھی یا موجودہ برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک امیگرینٹس کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کر چکے ہیں اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ کنزرویٹیو پارٹی تارکین وطن اور خاص طور پر غیر قانونی تارکین وطن کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جو لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن اس ملک میں موجود ہیں اور چھپ کر کام کرنے اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اُن کے لئے کسی قسم کی محفوظ ایمنسٹی سکیم بنائی جائے تاکہ ان لوگوں کی اصل تعداد کا اندازہ ہو سکے اور اِن تارکین وطن کو قانونی قیام کی اجازت دی جائے جس کے بعد وہ نہ صرف قانونی طور پر کام کر سکیں گے بلکہ حکومت کو ٹیکس بھی دیں گے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں جب بھی کوئی ایسا ہوم سیکرٹری بنایا جاتا ہے جس کا تعلق نسلی اقلیت سے ہو تو وہ سب سے پہلے ایسی پالیسی وضع کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کے ذریعے امیگرینٹس کے لئے زیادہ سے زیادہ مشکلات کھڑی کر کے اُن کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے۔ یعنی ہمارے لوگوں کو جب کوئی اختیار ملتا ہے تو وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران جن ملکوں کے لوگوں نے برطانیہ میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دیں اُن میں پہلے نمبر پر البانیہ ہے جس کے تقریباً 23ہزار لوگوں نے برطانیہ میں اسائلم کی درخواستیں دائر کیں۔ دوسرے نمبر پر ایران ہے جس کے 16ہزار سے زیادہ باشندوں نے سیاسی پناہ طلب کی۔ تیسرا نمبر عراق(ساڑھے 14ہزار درخواستیں) اور چوتھا نمبر افغانستان(10ہزار درخواستیں) کا آتا ہے۔ البانیہ یورپ کا واحد ملک ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یعنی اس ملک کی تقریباً 60فیصد آبادی مسلمان ہے۔ برطانیہ میں البانیہ کے اسائلم سیکرز کی درخواستوں سے نمٹنے کے لئے ہوم آفس میں جو فاسٹ ٹریک بنایا گیاہے اس پر بھی طرح طرح کے سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔ البانیہ کے لوگوں سے اس ”ترجیحی سلوک“ کو نسلی مساوات کے تقاضوں کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے موجودہ وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ وہ 2023ء کے اختتام تک سیاسی پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔ یعنی ہر مہینے 8ہزار اسائلم سیکرز کی درخواستوں کو نمٹایا جائے گا جو کہ عملی طور پر ممکن نہیں ہے۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بیشتر خوشحال ملکوں میں امیگریشن پالیسی اہم سیاسی اور انتخابی موضوع رہی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود برطانیہ کی طرح اور بہت سے ممالک کو پوری طرح یہ معلوم نہیں ہے کہ اُن کی سرحدوں کے اندر کتنے غیر قانونی تارکین وطن مقیم یا آباد ہیں۔جب کوئی ملک غیر قانونی تارکین وطن کے لئے ایمنسٹی کا اعلان کرتا ہے تو اس کے ذریعے اصل تعداد کا کسی حد تک صحیح اندازہ ہو جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں یورپ کے تمام خوشحال ملک اپنی سرحدوں کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنانے اور امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے میں سرگرم ہیں۔ اِن ملکوں کے باشندوں کے خیال میں اسائلم سیکرز ایک ایسا معاشی بوجھ ہیں جو ٹیکس دہندگان کو اُٹھانا پڑتا ہے۔ صرف برطانیہ میں ہر روز ساڑھے پانچ ملین پاؤنڈ اسائلم سیکرز کو عارضی رہائش(ہوٹل وغیرہ) فراہم کرنے پر صرف ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی ممکن کوشش ہے کہ غیرقانونی تارکین وطن کی اس ملک میں آمد کو روکاجائے اور صرف ایسے امیگرینٹس کو یونائیٹڈ کنگڈم میں آنے کی اجازت دی جائے جو پروفیشنل ہوں، ہنر مند ہوں، اس ملک کی اقتصادیات پر بوجھ نہ ہوں بلکہ ٹیکس دینے والے ہوں۔ لیکن اُن لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن اور اسائلم سیکرز کا کیا کیا جائے جو پہلے سے اس ملک میں موجود ہیں۔ اس بارے میں موجودہ حکومت کو کوئی ٹھوس اور قابل عمل پالیسی بنانا ہو گی۔ محض سیاسی بیان بازی سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ ویسے تو پاکستان میں بھی 14لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین ہیں جن کو مختلف حکومتیں واپس افغانستان بھیجنے کی پالیسی کا اعلان اور سیاسی دعوے کرتی رہی ہیں مگر اِن پر کسی بھی دور میں عملدرآمد نہیں ہو سکا۔ انڈین نژاد برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک غیر قانونی تارکین وطن اور اسائلم سیکرز کے بارے میں جو بھی پالیسی بنائیں یا سیاسی بیان جاری کریں۔زمینی حقائق کو ضرور پیش نظر رکھیں یہ نہ ہو کہ اُن کے دعوے تھرڈ ورلڈ کے سیاستدانوں کی طرح محض سیاسی دعوے ہی ثابت ہوں۔
٭٭٭٭٭٭