271

کروناسے بچائومگرکیسے۔۔؟


احتیاط،عقل،شعور،احساس اوردوسروں کادکھ ودردیہ اچھی خصلتیں اوراعلیٰ نعمتیں ہیں لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے جیسے ایک دونہیں ہزاروں اورلاکھوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اورشریف انسان آج بھی ان خصلتوں سے مکمل عاری اورنعمتوں سے یکسرمحروم یاپھردوربہت دورہیں۔کہنے کوتوہم اپنے ماتھے اور پیشانی پر، مہذب شہری،،کابورڈیانمبرپلیٹ سجائے پھررہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں ہم سے زیادہ بدتہذیب اوربدتمیزشہری اس روئے زمین پرشائد کوئی اور نہ ہوں۔ماناکہ احتیاط،عقل،شعوراوراحساس کے موضوع پرگھنٹوں گھنٹوں تک لیکچرہم دیتے ہیں۔ماناکہ مہذب اورذمہ دارشہری کے بارے میں گلی محلوں ،چوکوں اورچوراہوں پرآگاہی مہم بھی ہم چلاتے ہیں ۔ ماناکہ دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں، کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کو منٹوں نہیں سیکنڈوں میں نوٹ بھی ہم کرتے ہیں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہمیں مانناپڑے گاکہ پھراسی احتیاط،عقل،شعوراوراحساس کی رلتی،تڑپتی،چیختی اورچلاتی میتوں کوغسل بھی ہم ہی دے رہے ہوتے ہیں۔

یہ بھی ہمیں مانناپڑے گاکہ جس مہذب اورذمہ دارشہری کے بارے میں ہم گلی محلوں ،چوکوں اورچوراہوں پرآگاہی مہم چلاتے ہیں پھرانہی گلوں محلوں اورچوکوں وچوراہوں پرتمام تراخلاقیات اورقوانین کوپائوں تلے روندکرمہذب اورذمہ دارشہری کے منہ پرکالک بھی ہم خودملتے ہیں۔یہ بھی ہمیں تسلیم کرناہوگاکہ جن آنکھوں،دل ودماغ سے ہم دوسروں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں،کوتاہیوں اورلاپرواہیوں کونوٹ کرتے ہیں پھراپنانمبراوروقت آنے پرانہی آنکھوں،دل ودماغ سے ہمیں اپنی بڑی بڑی غلطیاں،ناقابل معافی کوتاہیاں اورلاپرواہیاں بھی نظرنہیں آتیں۔کسی نے ہماری شرافت،شعور،تہذیب اوراحساس کودیکھناہوتووہ ہماری پائوں تلے روندے جانے والے ٹریفک کے ٹوٹے سگنلز،بینک،سٹور،سکول ،کالجزاورہسپتالوں میں بکھرنے والی نمبرزکی لائنیں اوربرداشت کے مواقع پرریزہ ریزہ ہونے والے صبرکے پیمانے کودیکھ لیں۔چھاننی اٹھ کے کوزے کوکہے آپ میں دوسوراخ ہے کے مصداق تن،من اودھن ہمارادھندلادھندلاہوگالیکن داغ،دھبے،کیچڑاورسوراخ ہمیں دوسروں کے دامن میںنظرآئیں گے۔ہم تووہ بدقسمت اورڈھیٹ قسم کے لوگ ہیں کی جنہیں جس کام سے منع کردویہ اسی کام کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔یقین نہ آئے توآزماکردیکھ لیں۔بورڈ،دیواریادروازے پربڑے بڑے اورموٹے موٹے الفاظ میں لکھاہوگا،آگے جانامنع ہے،یہ بورڈپروہ الفاظ آرام وسکون کے ساتھ پڑھنے کے بعدآگے جانے،بڑھنے اورجھانکنے کی کوشش ضرورکریں گے کہ دیکھیں آگے کیاہے۔آپ ویسے کسی پتھرپرلکھیں ،،ہاتھ لگانامنع ہے،،پھردیکھیں اس پتھرکوہاتھ لگانے یاچھونے والوں کی کتنی قطاریں لگتی ہیں۔کہاجاتاہے کہ کروناکی دولہروں سے ہم احتیاط،شعور،احساس اورذمہ دارشہری بننے کی وجہ سے باحفاظت نکل گئے لیکن حقیقت میں ایساباالکل بھی نہیں۔کیونکہ کروناکی پہلی دولہروں کے دوران جس طرح کی احتیاط،شعور،احساس اورذمہ داری کامظاہرہ ہم نے کیاوہ پوری دنیاکے سامنے ہے۔کروناکی پہلی لہرکے دوران جب لوگ صرف منہ نہیں بلکہ پورے پورے جسم چھپاکرکروناسے بچائوکی تدبیریں اختیارکررہے تھے ہم اس وقت بھی منہ کھولے گلی،محلوں،بازاروں،مارکیٹوں،چوکوں اورچوراہوں پرکروناکامذاق اڑارہے تھے۔

پچھلے سال عیدخریداری اورپھرچاندرات کوہم نے بازاروں اورشاپنگ سنٹروں میں کروناکاجوحشرنشرکیا۔واللہ اس منظرکویادکرکے آج بھی خوف ساآنے لگتاہے۔کروناسے بچائوکیلئے کسی قدم اٹھانے کاتوہمیں نہیں پتہ البتہ کروناکوبارباردعوت دینے اورلانے کے لئے جتنی محنت اورکوششیں ہم نے کیں اللہ کااگرکوئی خاص فضل اورکرم نہ ہوتاتوواللہ اس کروناسے ہمیں کوئی نہ بچاپاتا۔ یہ تواللہ کاکوئی خاص رحم اورکرم تھاکہ اپنی طرف سے ہرحدعبور،لکیرکراس اوراحساس وذمہ داری کاجنازہ نکالنے کے بعدبھی اس رحیم وکریم رب نے پھربھی ہمیں اس آفت،مصیبت اورآزمائش سے بچائے رکھا۔کروناکی پچھلی دولہروں کے دوران بھی کروناایس اوپیزپرصرف مساجداورتعلیمی اداروں میں عملدرآمدہوا۔اب حالیہ تیسری اورخطرناک لہرپربھی لگتایہی ہے کہ اب کی باربھی ایس اوپیزایس اوپیزکاڈھنڈوراصرف تعلیمی اداروں اورمساجدتک محدودرہے گا۔ہم وہ بدقسمت لوگ ہیں کہ ہماری آنکھیں تب کھلتی ہیں جب پانی سرسے گزرچکاہوتاہے۔

اب پوری دنیاسے کروناکی تیسری لہربہت خطرناک کی صدائیں بلندہورہی ہیں لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔چنددن پہلے ایک جنازے میں شرکت کیلئے آبائی ضلع بٹگرام کی طرف جاناہوا۔ماناکہ بٹگرام اس وقت متاثرہ شہروں کی فہرست میں شامل نہیں لیکن کروناکے نشانے پرتوہے۔بڑوں سے لیکربچوں تک سب کویہ علم ہے کہ کروناخطرناک بہت خطرناک ہے اس کے باوجودگاڑی کے بندشیشوں سے بٹگرام شہرکے جوحالات ہم نے دیکھے وہ افسوسناک بہت ہی افسوسناک تھے۔پورے شہرمیں ہمیں اکادکالوگ ہی ایسے نظرآئے جنہوں نے ماسک لگائے ہوئے تھے باقی اکثریت کھلے منہ جگہ جگہ گھومتی اورپھرتی نظرآئی۔یہی حالات تقریباًہمارے باقی شہروں کے بھی ہیں۔کروناکی لات جب تک کسی کونہیں پڑتی اس وقت تک کوئی ماسک کومنہ اورایس اوپیزکوہاتھ لگانامناسب نہیں سمجھتا۔اس وقت پوری دنیاکروناکی لپیٹ ،خوف اورگھبراہٹ میں ہے لیکن ایک ہم ہیں کہ جنہیں اپنی ضد،بے شعوری،لاپرواہی،ہٹ دھرمی اورجاہلیت سے فرصت نہیں۔کسی نے واقعی سچ کہا۔ہم ڈنڈے کے لوگ ہیں۔ڈنڈے کھانے والے بھلاشرافت کی زبان کیاسمجھیں۔؟بحیثیت مسلمان ہم نہ پہلے کبھی اپنے رحیم وکریم رب سے ناامیدرہے اورنہ اب ہمیں اپنے غفوروشفیق رب سے ذرہ بھی کوئی ناامیدی ہے۔یہ توہماراایمان ہے کہ زندگی اورموت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔پہلے ہمارے رب نے کروناسے ہماری حفاظت فرمائی اب کی باربھی وہی رحیم وکریم رب ہمیں اس وباء،مصیبت،آفت اورآزمائش سے بچائیں گے۔ہماراگلہ صرف ان لوگوں اورقوتوں سے ہے جنہیں مساجداورتعلیمی اداروں میں کرونا ایس اوپیزکی فکرتوہے لیکن بازاروں،مارکیٹوں،شاپنگ سنٹروں،چوکوں اورچوراہوں پرانہیں کروناایس اوپیزکے روزانہ نکلنے والے جنازے نظرنہیں آرہے۔ کرونااگرخطرناک ہے تواس کاخطرہ صرف سکول، کالجز، یونیورسٹیز اورمساجد ومدارس میں نہیں بلکہ بازاروں،مارکیٹوں،شراب خانوں،مے خانوں،نائٹ کلبوں،چوکوں اورچوراہوں پربھی ہے۔جتنی فکرمساجد،مدارس،سکول،کالجزاوریونیورسٹیزمیں کروناایس اوپیزپرعملدرآمدکاہے۔اتناخیال پھربازاروں،شراب خانوں،چوکوں اورچوراہوں پرکروناایس اوپیزپرعملدرآمدکابھی ہوناچاہئیے۔ہمیں مساجداورمدارس میں کروناایس اوپیزپرکوئی اعتراض نہیں ۔

ہم توجس دین اورمذہب کے نام لیواہیں اس میں توایک جان کوفرض اورقرض دونوں پرفوقیت حاصل ہے۔جودین اسلام ایک جان بچانے کوپوری انسانیت بچانے کامتراف قراردیتاہے اس اسلام کے نام لیوا بھلاانسانی جانوںکے بچائوکیلئے کروناایس اوپیزکی کیسے مخالفت کرسکتے ہیں۔ہمیں انسانی جانیں پہلے بھی پیاری تھیں اورآج بھی پیاری ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ سکول،کالجز،یونیورسٹیاں ہوں یاپھربازار،مارکیٹ،چوک اورچوراہے ۔۔ہرجگہ ان جانوں کی حفاظت ہو۔قیمتی جانوں کی حفاظت کے لئے ہمیں اپنے یہ اصول،طورطریقے اورخودساختہ قوانین تبدیل کرنے ہوں گے۔جب تک ہم کروناسے بچائوکیلئے اپنوں اوربیگانوںسب کوایک رسی سے باندھتے اور ہانکتے نہیں تب تک کروناکیخلاف ہماری ان کوششوں اورقربانیوں کاکوئی فائدہ نہیں۔کیونکہ کروناکسی ایک جگہ سے نہیں پھیلتابلکہ یہ غریب کی جھونپڑی کے ساتھ امیرکے محل اورتاج محل سے بھی پھیلتاہے۔اس لئے کروناایس اوپیزکااطلاق عام وخاص، امیروغریب،رعایاوحکمران سب پریکساں ہوناچاہئیے تاکہ کروناکی تازہ لہراوروباء سے اس ملک اورقوم کابچائو ممکن ہوسکے ورنہ محض مساجداورتعلیمی اداروں کوبندکرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔