437

بلوچستان سے شہاب ثاقب چوری ہوکر امریکہ کیسے پہنچا؟

پاکستانی قوم میں کتنے ایماندار لوگ پائے جاتے ہیں اس بات کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ 9 جنوری 2020 کی شام بلوچستان کے علاقے ژوب میں زوردار دھماکوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکرے ہو کر ایک بڑا شہاب ثاقب گرتا ہے، ان ٹکروں میں ایک بڑا ٹکرا 19 کلوگرام جسامت کا بھی ہوتا ہے، جسے مقامی لوگ اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں، بات باہر نکلنے پر کچھ حکومتی اہلکار اسے مقامی لوگوں سے یہ کہہ کر اپنی تحویل میں لے لیتے ہیں کہ وہ اسے مزید تحقیق کیلئے اسلام آباد بھیجیں گے، لیکن بعد میں اس لاکھوں ڈالر مالیت کے قیمتی پتھر کو افغانستان سمگل کر کے صرف چار لاکھ روپے کا بیچ دیا جاتا ہے۔


افغانستان میں مائیکل فارمر نامی قیمتی پتھر خریدنے والی امریکی کمپنی اس پتھر کو خرید کر امریکہ بھیج دیتی ہے، جسے بعد میں ٹکسن منرل اینڈ جیمز شو میں لاکھوں ڈالرز میں بیچ دیا جاتا ہے، شو سے امریکہ کی ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی یہ قیمتی پتھر تحقیقی مقاصد کے لیے خرید لیتی ہے، شہاب ثاقب کے اس ٹکرے میں سلیکون، آئرن اور نکل جیسے عناصر کی بہتات ہے، اور اسکا تعلق مریخ اور مشتری کے درمیان واقع ایسٹیرائڈ بیلٹ سے ہے، اور محققین کے لیے یہ پتھر انتہائی اہمیت کا حامل ہے، اگر یہ پتھر پاکستان کے کسی میوزیم میں رکھا جاتا، پاکستانی محققین اس پر تحقیق کرتے تو سینکڑوں گورے اسے دیکھنے پاکستان آتے، پاکستان میں سیاحت کی صنعت بڑھتی، ڈالرز پاکستان آتے، مقامی لوگ خوشحال ہوتے، دنیا میں پاکستان کا نام ہوتا، لیکن افسوس کچھ لوگوں نے اپنے ذاتی مفاد میں چار لاکھ کما لیئے ملک جائے بھاڑ میں کسی کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے?۔

اپنا تبصرہ بھیجیں