934

ہے کہاں کا ارادہ تمھارا صنم، کس کے دل کو اداوں سے بہلاؤ گے

آج کی بات پھر نہیں ہوگی

یہ ملاقات پھر نہیں ہوگی

ایسے بادل تو پھر بھی آئیں گے

ایسی برسات پھر نہیں ہوگی

رات انکو بھی یوں ہوا محسوس

جیسے یہ رات پھر نہیں ہوگی

اک نظر مُڑ کے دیکھنے والے

کیا یہ خیرات پھر نہیں ہوگی

شب غم کی سحر نہیں ہوتی

ہو بھی تو میرے گھر نہیں ہوتی

زندگی تو ہی مختصر ہوجا

شب غم مختصر نہیں ہوتی

راز داروں سے بچ کے چلتا ہوں

غم گساروں سے بچ کے چلتا ہوں

مجھ کو دھوکا دیا سہاروں نے

اب سہاروں سے بچ کے چلتا ہوں

میں نے معصوم بہاروں میں تمہیں دیکھا ہے

میں نے پر نور ستاروں میں تمہیں دیکھا ہے

میرے محبوب تیری پردہ نشینی کی قسم

میں نے اشکوں کی قطاروں میں تمہیں دیکھا ہے

ہم بتوں سے جو پیار کرتے ہیں

نقل پروردگار کرتے ہیں

اتنی قسمیں نہ کھاؤ گھبرا کر

جاؤ ہم اعتبار کرتے ہیں

اب بھی آجاؤ کچھ نہیں بگڑا

ابھی ہم انتظار کرتے ہیں

ساز ہستی بجا رہا ہوں میں

جشن مستی منا رہا ہوں میں

کیا ادا ہے نثار ہونے کی

ان سے پہلو بچا رہا ہوں میں

کتنی پختہ ہے میری نادانی

تجھ کو تجھ سے چھپا رہا ہوں میں

دل ڈوبوتا ہوں چشم ساقی میں

مے کو مے میں ملا رہا ہوں میں

نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے

پسینہ پونچھیئے اپنی جبیں سے

ہے کہاں کا ارادہ تمہارا صنم

کس کے دل کو اداؤں سے بہلاؤ گے

سچ بتاؤ کہ اس چاندنی رات میں

کس سے وعدہ کیا ہے کہاں جاؤ گے

دیکھو اچھا نہیں ہے تمہارا چلن

یہ جوانی کے دن اور یہ شوخیاں

یوں نہ آیا کرو بال کھولے ہوئے

ورنہ دنیا میں بدنام ہوجاؤ گے

آج جاؤ نہ بےچین کر کے مجھے

جان جاں دل دکھانا بُری بات ہے

زلف رخ سے ہٹا کے بات کرو

رات کو دن بنا کے بات کرو

میکدے کے چراغ مدھم ہیں

ذرا آنکھیں اٹھا کے بات کرو

پھول کچھ چاہئیں حضور ہمیں

تم ذرا مسکرا کے بات کرو

یہ بھی انداز گفتگو ہے کوئی

جب کرو دل دکھا کے بات کرو

آج جاؤ نہ بےچین کر کے مجھے

جان جاں دل دکھانا بُری بات ہے

ہم تڑپتے رہیں گے یہاں رات بھر

تم تو چین کی نیند سو جاؤ گے

پاس آؤ تو تم کو لگائیں گلے

مسکراتے ہو کیوں دور سے دیکھ کر

یونہی گزرے اگر یہ جوانی کے دن

ہم بھی پچھتائیں گے تم بھی پچھتاؤ گے

بے وفا بے مروت ہے ان کی نظر

یہ بدل جائیں گے زندگی لوٹ کر

حسن والوں سے دل کو لگایا اگر

اے فنا! دیکھو بے موت مر جاؤ گے

(فنا بلند شہری)