Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
33

ہیرڈز اور محمد الفائید

لندن میں نائٹس برج کا شمار اس شہرکے مہنگے ترین علاقوں میں ہوتا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کی عمارت بھی نائٹس برج ٹیوب سٹیشن سے چند منٹ کے فاصلے پر ہے۔ اس علاقے میں دنیا کے مہنگے ترین ریستوران، برینڈڈ سٹورز، شو رومز اور قیمتی اپارٹمنٹس کی وجہ سے ہر وقت رونق اور گہما گہمی ہوتی ہے۔ وسطی لندن کا شاندار اور وسیع و عریض ہائیڈپارک بھی نائٹس برج سے ملحق ہے۔ اس علاقے کی سب سے منفرد عمارت اور دنیا کے امیر ترین لوگوں کے لئے پرکشش سٹور ہیرڈز(HARRODS)ہے۔ پاکستان سے برطانیہ آنے والے سیاستدان اور متمول لوگ اس مہنگے ترین سٹور سے شاپنگ کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھتے ہیں اور ویسے بھی ہیرڈز اپنی بہترین کسٹمر سروس کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتا ہے۔ ہیرڈز اُن دِنوں پوری دنیا میں خبروں اور توجہ کا مرکز بنا رہاجب اگست 1997ء میں برطانوی شہزادی ڈیانا پیرس میں کار کے علاقے میں ہلاک ہو گئیں۔ حادثے کے وقت اُن کے ساتھ دودی الفائید بھی تھے(جو مبینہ طور پر شہزادی ڈیانا کے بوائے فرینڈ تھے) اور وہ بھی موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے تھے۔ دودی الفائید کے والد محمد الفائید اس وقت ہیرڈز سٹور کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ پیرس کا رٹز ہوٹل اور لندن کا فولہم فٹ بال کلب بھی اُن کی ملکیت میں تھا۔ محمد الفائید مصر کے ارب پتی تاجر تھے جنہوں نے بہت ہنگامہ خیز زندگی گزاری۔ اگست 2023ء میں وفات کے وقت اُن کے اثاثوں کی مالیت 2بلین امریکی ڈالرز سے بھی زیادہ تھی۔ وہ مختلف ادوار میں برطانوی میڈیا کی توجہ کا مرکز رہے۔ برطانوی ہوم آفس نے جب 1994ء میں انہیں برٹش شہریت دینے سے انکار کیا تو محمد الفائید نے اس پر اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار کیا جس کے بعد 1999ء میں بھی ان کی برطانوی شہریت کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ 2002ء میں انہوں نے اپنی غیر قانونی گرفتاری پر لندن کی میٹروپولیٹن پولیس پرمقدمہ بھی دائر کیا۔ان پر ہیرڈز میں کام کرنے والی خوبصورت لڑکیوں کی طرف سے جنسی ہراسمنٹ کے الزامات بھی لگائے گئے لیکن کوئی بھی الزام شواہد اور ثبوتوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے محمد الفائید کو گرفت میں نہ لے سکا۔ 94سال کی عمر میں وفات پانے والے اس مصری تاجر کو لندن کے بروگرین کورٹ کے قبرستان میں ان کے بیٹے دودی الفائید کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ تدفین سے پہلے اُن کی نمازِ جنازہ وسطی لندن کی سنٹرل ماسک میں ادا کی گئی۔

مجھے یاد ہے جب 31اگست 1997ء کو برطانیہ اور پوری دنیا میں پرنسس ڈیانا کی وفات کا سوگ منایا جا رہا تھا تو کسی کو اس سانحے پر ملال تک نہیں تھا کہ محمد الفائید کا بیٹا بھی اس حادثے میں ہلاک ہوا ہے۔ محمد الفائید نے اپنے جواں بیٹے کی موت کا غم برداشت کیا اور اپنے بیٹے کی محبت کو شاہی اعزاز کے ساتھ دفن ہوتے ہوئے دیکھا۔ وفات کے ایک سال بعد ایک بارپھر برطانوی ذرائع ابلاغ میں محمد الفائید کا چرچا ہونے لگا ہے۔ الزام وہی پرانا ہے کہ مرحوم ہیرڈز کی نوجوان اور خوبصورت ملازم خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا کرتے تھے۔ الزامات لگانے والی حسیناؤں کا کہنا ہے کہ مرحوم الفائید سنہرے بالوں والی انگریز لڑکیوں اور اُن کی صحبت کو پسند کرتے تھے۔ اُن کی کوشش ہوتی تھی کہ ہیرڈز کے سٹاف میں شامل سب سے زیادہ حسین لڑکیوں کو اپنے پرسنل سٹاف میں شامل کر کے اُن کا قرب اور توجہ حاصل کریں اور وہ کئی بار مختصر لباس پہننے والی اِن ناز نینوں کے زیرِ جامہ میں نوٹوں کی گڈیاں اُڑس دیا کرتے تھے۔ برطانوی میڈیا میں گذشتہ ہفتے محمد الفائید کی تصاویر کے ساتھ اِن الزامات  کی خبروں کو بہت نمایاں کیا گیا۔ شاید اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ مرحوم کا نام ہیرڈز سٹور کے سابق مالک کے طور پر تاریخ کا حصہ ہے۔ اس لئے جب بھی ہیرڈز کا ذکر ہوتا ہے تو محمد الفائید کا نام ضرور ذہن میں آتا ہے اور اس سٹور کے بارے میں پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں ایک ہی بات کہی جاتی ہے یعنی وَن اینڈ اونلی ہیرڈز۔ یہ بے مثال سٹور 1849ء یعنی ایک سو پچھتر سال قبل قائم کیا گیا۔ اس کے بانی ایک انگریز بزنس ٹائیکون چارلس ہینری ہیرڈ تھے۔ جس وقت یہ ڈپارٹمنٹل اینڈ گروسری سٹور بنایا گیا تھا تو اس کی ہفتے بھر کی آمدنی صرف 20پاؤنڈ تھی اور اب اس کی آمدنی تقریباً 50لاکھ پاؤنڈ فی ہفتہ ہے۔ ہیرڈز کے گاہکوں (کسٹمرز) کی اکثریت دو طرح کے لوگوں پر مشتمل ہے۔ ایک طرح کے گاہک تو وہ لوگ ہیں جو جدّی پشتی امیر کبیر یا سیلبرٹیز ہیں اور جن کے پاس بے حساب مال و دولت ہے۔ ایسے لوگ عام سٹورز سے خریداری کو اپنی شان و شوکت کے خلاف سمجھتے ہیں اور ہمیشہ معیار /کوالٹی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔ اِن لوگوں کے لئے بہترین کسٹمر سروس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ہیرڈز کے دوسری طرح کے کسٹمرز میں وہ لوگ شامل ہیں جو نودولتیے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ کرپشن کے ذریعے مال و دولت ہتھیا کر اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے لئے ہیرڈز سے خریداری کرتے ہیں۔ اسی طرح لاٹری اور جوئے میں رقم جیتنے والے بھی ہیرڈز سے شاپنگ کرتے ہیں تاکہ اپنے ملنے جلنے والوں پر اپنی امارت کا رعب ڈال سکیں۔ ہیرڈز میں دنیا کی ہر چیزخریداری کے لئے دستیاب ہوتی ہے۔ یہ محض ایک ڈپارٹمنٹل سٹور ہی نہیں ہے بلکہ مہنگی جائیدادوں کی خریدوفروخت کے لئے اس کا ایک الگ شعبہ ہے۔ اس کے علاوہ ایوی ایشن اور ایئرلائن سروس کے لئے بھی ہیرڈز کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ لندن میں آکسفورڈ سٹریٹ کے سیلف رجز سٹور کے بعد ہیرڈز برطانیہ کا دوسرا بڑا ڈپارٹمنٹل سٹور ہے جو کہ 5ایکڑ رقبے پر مشتمل ہے۔ اس کی ملٹی سٹوری عمارت کی چھت پر ہیلی پیڈ بھی بنا ہوا ہے۔ اگر ہیرڈز کے 330ڈپارٹمنٹس کو صرف سرسری طور پر دیکھا جائے تو اس کے لئے کئی دِن درکار ہوں گے۔ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد بھی ہیرڈز کو دیکھنے اور اس کی عمارت کے ساتھ تصاویر بنوانے کے لئے نائٹس برج آتی ہے۔ رات کے وقت ہیرڈز کی عمارت کے چاروں طرف قمقمے روشن ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے یہ بلڈنگ اور زیادہ جاذبِ نظر اور پرکشش لگتی ہے۔ اس ڈپارٹمنٹنل سٹور میں ہر روز تقریباً ایک لاکھ لوگ شاپنگ کے لئے آتے ہیں۔کرسمس اور سیل کے موقع پر یہ تعداد تین لاکھ تک جا پہنچتی ہے۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے علاوہ بڑے بڑے اداکار، مشہور کھلاڑی، ماڈلز، گلوکار اور یوٹیوب سٹارز ہیرڈز کے مستقل کسٹمرز ہیں، چین سے تعلق رکھنے والے امیر کبیر لوگ ہیرڈز کو اس لئے پسند کرتے ہیں کہ یہاں قیمتی اشیاء کی کوالٹی اور کسٹمر سروس بے مثال ہے۔ اس ڈپارٹمنٹل سٹور میں اب تک فروخت کی جانے والی سب سے قیمتی وہ کشتی (لگژری یاٹ) تھی جس کا نام ”پروجیکٹ مارز“ تھا۔ اٹلی کی بنی ہوئی اس کشتی کو ہیرڈز نے 2014ء میں 165ملین امریکی ڈالرز میں فروخت کیا تھا۔ اسی طرح 1987ء میں فراری کار کا ایک ماڈل (کھلونا) 34ہزار چھ سو اسی پاؤنڈز میں فروخت کیا گیا۔ لندن میں ہیرڈز سٹور کے ملازمین کی تعداد چھ ہزار سے زیادہ ہے۔ ہیتھروایئرپورٹ کے مختلف ٹرمینلز پر بھی ہیرڈز نے اپنے چھوٹے ڈپارٹمنٹل سٹور اور سیلز پوائنٹس بنائے ہوئے ہیں۔ ہیرڈز لندن اور برطانیہ کی ایک شاندار ٹورسٹ اٹریکشن ہے۔ یہ بے مثال ڈپارٹمنٹل سٹور آج کل قطر کی ایک انویسٹمنٹ کمپنی کی ملکیت ہے۔ وسطی لندن سے ہیتھرو ایئرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے یا کسی دوسرے شہر اور ملک سے نائٹس برج کی طرف آتے ہوئے ہر فرد کو ہیرڈز کی عمارت اپنی طرف ضرور متوجہ کرتی ہے اور خاص طور پر رات کے وقت اس پر جگمگانے والی روشنیاں اس تاریخی عمارت کی کشش میں کئی گنا اضافہ کر دیتی ہیں۔ لندن آنے والے پاکستانی سیاستدانوں اور مال دار لوگوں کے لئے بھی ہیرڈز ایک پرکشش سٹور ہے لیکن بہت سے اوورسیز پاکستانی،و طنِ عزیز سے آنے والے ارباب اختیار، وزیروں، مشیروں اور حکمرانوں کو ہیرڈز سے شاپنگ کرتے ہوئے دیکھ کر حیران ضرور ہوتے ہیں کہ ایک غریب اور مفلوک الحال اسلامی اور جمہوری ملک کے یہ کرتا دھرتا اتنے مہنگے سٹور سے خریداری کے متحمل کیسے ہو سکتے ہیں؟

٭٭٭