عجب سماں سا بنا دل نے لی انگڑائی ہے
چل مر غزار چلیں کہ اب پِھر سے بہارآئی ہے
کِسی پُر لطف مُسافت کے سفر پہ نِکلیں
وہ ہمسفر رہے دونوں کی ہی بھلائی ہے
اُسے قدرت کے نِظاروں میں ساتھ رکھنے کا
یہ وطیرہ بھی اب چاہت کا شنا سائی ہے
اُسے بہار سے پیار, ہیں ہم خزاں کے طلب گار
دونوں نکتوں میں کِسی ایک میں گہرائی ہے
ہر اِک چٹان کا ہی شاہیں سے پڑا ہے پالا
ہر طرف شمع پہ پروانہ ہی شیدائی ہے
ہر مر غزار میں ترانوں کا ترنم سنئیے
ہر سِمت شاخ پہ بلبل کی ہی سگھائی ہے
تیرے انداز کی سی مخُمور مست ہے وہ
جو چراگاہ میں چرتی ہرن اب بھائی ہے
صبح بخیر کی اُسکی پُکار ایسی تھی
جیسے بہار کا نغمہ کوئل سنائی ہے
اُسکے گلشن میں حُلیہ سازوں نے ہر پتی
سدا شبنم سے ہی رُلا ئی ہے
اُسے جفا کے سمندر میں تیرتے دیکھا
وہی تصویر اِن آنکھوں میں اب سمائی ہے
آخر انسان ہے خطا بھی ہے ممکن اِس سے
اُسکا دعویٰ ہے کہ گنگا میں وہ نہائی ہے
فراق کی جہد سے تھکا، جو بامِ عشق پہ ہوں
میرے لبوں پہ اب شدت سے پیاس آئی ہے
اُسکی اّنا کا سدباب اب بھی ہو کہ نہ ہو
کلی و پُھول تو خزاں کی ہی رسوائی ہے
چل آبشارِ مضافات میں اُسے پِھر ڈھونڈیں
جو تیرے قفس سے مُقیّد تتلی اُڑائی ہے
نہ چھیڑ بہار میں بہاروں کا تال اے راہی
لگتی دلسوز اب رِندوں پہ یہ شہنائی ہے
عبدالرحمن خان (راہی)