420

گھاٹے کے سوداگر

ہنری کا تعلق امریکہ کے شہر سیاٹل سے تھا وہ مائیکرو سافٹ میں ایگزیکٹو منیجر تھا۔اس نے 1980 ء میں جارج واشنگٹن یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں ماسٹر کیا اور اس کے بعد مختلف کمپنیوں سے ہوتا ہوا مائیکرو سافٹ پہنچ گیا ٗ مائیکرو سافٹ اس کے کیرئیر میں ’’ہیلی پیڈ‘‘ ثابت ہوئی اور وہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا گیا ٗوہ 1995ء میں کمپنی میں بھاری معاوضہ لینے والے لوگوں میں شمار ہوتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا تھا جب تک ہنری کسی سافٹ وئیر کو مسکرا کر نہ دیکھ لے مائیکرو سافٹ اس وقت تک اسے مارکیٹ نہیں کرتی ٗ ہنری نے کمپنی میں یہ پوزیشن بڑی محنت اور جدوجہد سے حاصل کی تھی, وہ دفتر میں روزانہ16 گھنٹے کام کرتا تھا ٗ وہ صبح 8 بجے دفتر آتا تھا اور رات بارہ بجے گھر جاتا تھا ٗہنری کا ایک ہی بیٹا تھا ٗ ہنری دفتری مصروفیات کے باعث اپنے بیٹے کو زیادہ وقت نہیں دے پاتا تھا ٗ وہ جب صبح اٹھتا تھا تو اس کا بیٹا سکول جا چکا ہوتا تھا اور وہ جب دفتر سے لوٹتا تھا تو بیٹا سو رہا ہوتا تھا ٗ چھٹی کے دن اس کا بیٹا کھیلنے کے لئے نکل جاتا تھا جبکہ ہنری سارا دن سوتا رہتا تھا۔ 1998ء میں سیاٹل کے ایک ٹیلی ویژن چینل نے ہنری کا انٹرویو نشر کیا ٗ اس انٹرویو میں ٹیلی ویژن کے میزبان نے اعلان کیا آج ’’ہمارے ساتھ سیاٹل میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی شخصیت بیٹھی ہے‘‘ کیمرہ میزبان سے ہنری پر گیا اور ہنری نے فخر سے مسکرا کر دیکھا ٗ اس کے بعد انٹرویو شروع ہو گیا ٗ اس انٹرویو میں ہنری نے انکشاف کیا وہ مائیکرو سافٹ سے 500 ڈالر فی گھنٹہ لیتا ہے۔

یہ انٹرویو ہنری کا بیٹا اور بیوی بھی دیکھ رہی تھی ٗ انٹرویو ختم ہوا تو ہنری کا بیٹا اٹھا ٗ اس نے اپنا ’’منی باکس‘‘ کھولا ٗ اس میں سے تمام نوٹ اور سکے نکالے اور گننا شروع کر دئیے ٗ یہ ساڑھے چار سو ڈالر تھے ٗ ہنری کے بیٹے نے یہ رقم جیب میں ڈال لی‘ اس رات جب ہنری گھر واپس آیا تو اس کا بیٹا جاگ رہا تھا ٗ بیٹے نے آگے بڑھ کر باپ کا بیگ اٹھایا ٗ ہنری نے جھک کر بیٹے کو پیار کیا ٗبیٹے نے باپ کو صوفے پر بٹھایا اور بڑی عاجزی کے ساتھ عرض کیا ’’ڈیڈی کیا آپ مجھے پچاس ڈالر ادھار دے سکتے ہیں‘‘ باپ مسکرایا اور جیب سے پچاس ڈالر نکال کر بولا ’’کیوں نہیں ٗ میں اپنے بیٹے کو ساری دولت دے سکتا ہوں‘‘ بیٹے نے پچاس ڈالر کا نوٹ پکڑا ٗ جیب سے ریزگاری اور نوٹ نکالے ٗ پچاس کا نوٹ ان کے اوپر رکھا اور یہ ساری رقم باپ کے ہاتھ پر رکھ دی ٗ ہنری حیرت سے بیٹے کو دیکھنے لگا ٗ بیٹے نے باپ کی آنکھ میں آنکھ ڈالی اور مسکرا کر بولا ’’یہ پانچ سو ڈالر ہیں ٗ میں ان پانچ سو ڈالروں سے سیاٹل کے سب سے امیر ورکر سے ایک گھنٹہ خریدنا چاہتا ہوں‘‘ ہنری خاموشی سے بیٹے کی طرف دیکھتا رہا ٗ بیٹا بولا ’’میں اپنے باپ سے صرف ایک گھنٹہ چاہتا ہوں ٗ میں اسے جی بھر کر دیکھنا چاہتا ہوں ٗ میں اسے چھونا چاہتا ہوں ٗ میں اسے پیار کرنا چاہتا ہوں ٗ میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں ٗ میں اس کے ساتھ ہنسنا ٗ کھیلنا اوربولنا چاہتا ہوں ٗ۔

ڈیڈی کیا آپ مجھے ایک گھنٹے دے دیں گے ٗ میں آپ کو اس کا پورا معاوضہ دے رہا ہوں ‘‘ ہنری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ٗ اس نے بیٹے کو گلے سے لگایا اور پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ہنری نے 1999ء میں ’’فیملی لائف‘‘ کے نام سے ایک آرٹیکل لکھا ٗ مجھے یہ مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا ٗ اس مضمون میں اس نے انکشاف کیا دنیا میں سب سے قیمتی چیز خاندان ہوتا ہے ٗ دنیا میں سب سے بڑی خوشی اور سب سے بڑا اطمینان ہماری بیوی اور بچے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ انہیں سب سے کم وقت دیتے ہیں ٗ ہنری کا کہنا تھا دنیا میں سب سے بڑی بے وفا چیز ہماری نوکری ٗہماراپیشہ اور ہمارا کاروبار ہوتا ہے ٗہم آج بیمار ہو جائیں ٗ آج ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے توہمارا ادارہ شام سے پہلے ہماری کرسی کسی دوسرے کے حوالے کر دے گا ٗہم آج اپنی دکان بند کردیں ‘ہمارے گاہک کل کسی دوسرے سٹور سے خریداری کر لیں گے ٗ آج ہمارا انتقال ہو جائے تو کل ہمارا شعبہ ‘ہمارا پیشہ ہمیں فراموش کر دے گا لیکن بدقسمتی سے ہم لوگ دنیا کی سب سے بڑی بے وفا چیز کو زندگی کا سب سے قیمتی وقت دے دیتے ہیں ٗ ہم اپنی بہترین توانائیاں اس بے وفا دنیا میں صرف کر دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ہمارے دکھ درد کے ساتھی ہیں جن سے ہماری ساری خوشیاں اور ہماری ساری مسرتیں وابستہ ہیں اور جو ہمارے ساتھ انتہائی وفادار ہوتے ہیں ہم انہیں فراموش کر دیتے ہیں ٗ ہم انہیں اپنی زندگی کا انتہائی کم وقت دیتے ہیں۔‘‘
‘میں نے سوچابدقسمتی سے ہم لوگ پہلی قسم کے لوگوں کو اپنی زندگی کا سب سے قیمتی حصہ دے دیتے ہیں ٗ ہم لوگ زندگی بھر دوسری قسم کے لوگوں کو فراموش کرکے پہلی قسم کے لوگوں کے پیچھے بھاگتے رہتے ہیں ٗ ہم بے وفا لوگوں سے وفاداری نبھاتے رہتے ہیں اور وفاداروں سے بے وفائی کرتے رہتے ہیں‘میں نے کسی جگہ امریکہ کے ایک ریٹائر سرکاری افسر کے بارے میں ایک واقعہ پڑھا تھا۔

اس افسر کو وائٹ ہاؤس سے فون آیا کہ فلاں دن صدر آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘ اس افسر نے فوراً معذرت کر لی ٗ فون کرنے والے نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’میں اس دن اپنی پوتی کے ساتھ چڑیا گھر جا رہا ہوں‘‘ یہ جواب سن کر فون کرنے والے نے ترش لہجے میں کہا ’’آپ چڑیا گھر کو صدر پر فوقیت دے رہے ہیں‘‘ریٹائر افسر نے نرمی سے جواب دیا ’’نہیں میں اپنی پوتی کی خوشی کو صدر پر فوقیت دے رہا ہوں‘‘ فون کرنے والے نے وضاحت چاہی تو ریٹائر افسر نے کہا ’’مجھے یقین ہے میں جوں ہی وہائٹ ہاؤس سے باہر نکلوں گا تو صدر میرا نام اور میری شکل تک بھول جائے گاجبکہ میری پوتی اس سیر کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ میں گھاٹے کا سودا کیوں کروں‘میں یہ وقت اس پوتی کو کیوں نہ دوں جو اس دن‘ اس وقت میری شکل اور میرے نام کو پوری زندگی یاد رکھے گی‘ جو مجھ سے محبت کرتی ہے‘ جو اس دن کیلئے گھڑیاں گن رہی ہے‘‘ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو میں نے کرسی کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرکے دیر تک سوچتا رہا ٗ ہم میں سے 99 فیصد لوگ زندگی بھر گھاٹے کا سودا کرتے ہیں ٗ ہم لوگ ہمیشہ ان لوگوں کو اپنی زندگی کے قیمتی ترین لمحات دے دیتے ہیں جن کی نظر میں ہماری کوئی اوقات ٗ ہماری کوئی اہمیت نہیں ہوتی‘ جن کیلئے ہم ہوں یا نہ ہوں کوئی فرق نہیں پڑتا ‘جو ہماری غیر موجودگی میں ہمارے جیسے کسی دوسرے شخص سے کام چلا لیتے ہیں‘ میں نے سوچا ہم اپنے سنگدل باس کو ہمیشہ اپنی اس بیوی پر فوقیت دیتے ہیں جو ہمارے لئے دروازہ کھولنے ٗہمیں گرم کھانا کھلانے کے لئے دو ٗ دو بجے تک جاگتی رہتی ہے ٗ ہم اپنے بے وفا پیشے کو اپنے ان بچوں پر فوقیت دیتے ہیں جو مہینہ مہینہ ہمارے لمس ٗ ہماری شفقت اور ہماری آواز کو ترستے ہیں ٗ جو ہمیں صرف البموں اور تصویروں میں دیکھتے ہیں ٗ جو ہمیں یاد کرتے کرتے بڑے ہوجاتے ہیں اور جو ہمارا انتظار کر تے کرتے جوان ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ہمارا قرب نصیب نہیں ہوتا‘ ہم انہیں ان کا جائز وقت نہیں دیتے‘ میں نے سوچا‘ ہم سب گھاٹے کے سوداگر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں