وہ غزل سنا رہے تھے اور مشاعرہ گاہ میں داد و تحسین کے علاوہ کوئی اور آواز سنائی نہیں دے رہی تھی جب انہوں نے یہ شعر پڑھا؎۔
ہمارے خواب چوری ہو گئے ہیں
ہمیں راتوں کو نیند آتی نہیں ہے
تو ہر طرف واہ واہ نے ثابت کر دیا کہ مشاعرہ لوٹ لیا گیا ہے۔ یہ شاعر بخش لائلپوری تھے جو مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے جس میں تقریباً دوسو سے زیادہ باذوق خواتین و حضرات موجود تھے جو لندن اور گردونواح سے خاص طور پر اس مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ یہ 1994ء کے آغاز میں لندن کے کسی علاقے میں ہونے والے مشاعرے کی ایک جھلک ہے۔ تاریخ اور مقام تو مجھے پوری طرح یاد نہیں مگر اتنا یاد ہے کہ لندن میں یہ میرا پہلا مشاعرہ تھا ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لندن سے بی بی سی آئی اور اردومرکز کی بساط لپٹ چکی تھی۔ اردو کے بہت سے نامور ادیب اور شاعر واپس پاکستان جا چکے تھے مگر اس کے باوجود لندن میں اردو کے اچھے شاعروں کی بڑی تعدادموجود تھی، مشاعروں اور ادبی تقریبات کا سلسلہ نہ صرف لندن بلکہ برطانیہ کے دیگر شہروں میں بھی جاری تھا۔ انڈیا اور خاص طور پر پاکستان سے کئی شاعروں کی ٹولیاں ان تقریبات کی شان بڑھانے کے لئے برطانیہ آتی تھیں یا بلائی جاتی تھیں۔
اُن دنوں برطانیہ، واقعی اُردو کا تیسرا بڑا ادبی مرکز تھا۔ ساقی فاروقی، اکبر حیدرآبادی، عاشور کاظمی، بلبل کاشمیری، بخش لائلپوری) جنہیں ایک سینئر شاعر پنجابی میں مینوں بخش لا ئل پوری کہا کرتے تھے)، اختر ضیائی، انجم خیا لی،منصور معجز، اطہر راز،صفدرہمدانی، باصر کاظمی، سرمد بخاری، جاوید اختر بیدی، حفیظ جوہر، جاوید اقبال ستار، یشب تمنا، سجاد شمسی، ارشد لطیف اور بہت سے اچھے اور جینوئن شاعر، شاعری کے آسمان پر جگمگا رہے تھے۔ نثر نگاروں میں قیصر تمکین، محمود ہاشمی، رضاعلی عابدی ، مقصود الہٰی شیخ، جتندر بلو، شاہدہ احمد، محسنہ جیلانی، نجمہ عثمان اور صفیہ صدیقی کے علاوہ اور کئی ناموں کا ڈنکا بج رہا تھا۔ اُن دنوں شاید ہی کسی ایسے شاعر کو مشاعرے میں دعوت کلام دی جاتی تھی جسے کم از کم وزن میں شعر کہنے کا سلیقہ نہ ہوجس طرح مشاعروں میں عمدہ شاعری سننے کو ملتی تھی اسی طرح اہل ذوق کی بڑی تعداد بھی ادبی تقریبات میںجوق در جوق شریک ہوتی تھی۔ میں مشاعروں میں شرکت سے ہمیشہ گریز کرتا رہا ہوں مگر اُن دنوں واقعی مشاعروں کا معیار بہت اعلی تھا، شعر سننے اور سنانے کا لطف آتا تھا، باذوق حاضرین کی بڑی تعداد کی طرف سے حوصلہ افزائی کے باعث مزید اچھے شعر لکھنے کی جستجو رہتی تھی۔
گزرنے والی تین دہائیوں کے دوران برطانیہ میں نہ صرف اردو بولنے اور سمجھنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے بلکہ اردو شاعری کا معیار بھی آسمان سے زمین پر آ گیا ہے۔ وہی حاضرین جو کبھی مشاعروں کی محفل میں پچھلی نشستوں پر بیٹھے واہ واہ کرتے تھے انہیں بھی نمایاں ہونے اور اپنی شناخت کرانے کا شوق چرایا۔ پہلے تو انہوں نے تک بندی کاآغاز کیا پھر کوئی مہربان جینوئن استاد شاعر میسر آ گیا تو اس سے اصلاح لینے کو غنیمت سمجھا مگر پھررفتہ رفتہ اصلاح سے عاجز آ کر اپنے ہی لکھے ہوئے شعروں بلکہ تک بندی کو مستند سمجھناشروع کر دیا یا پھر پاکستان سے ریڈی میڈ کلام کی امپورٹ شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی کئی شعری مجموعے یکے بعد دیگرے اُن کے نام سے شائع ہو گئے۔ اس معاملے میں خواتین، مردوں پر سبقت لے گئیں شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ آجکل شاعری بہت آسان ذریعہ شناخت بن گئی ہے، شاعری کی اس دوڑ میں بہت سی ایسی خواتین جو وزن میں شہر کہنا تو کجا، وزن میں لکھے ہوئے شعر کو وزن میں بھی نہیں پڑھ سکتیں ،اب کئی کئی شعری مجموعوں کی خالق بلکہ مالک بن گئی ہیں۔ جس طرح بانجھ عورتیں ماں کہلانے کے شوق میں دوسروں کے بچے گود لیتی ہیں اسی طرح شاعری کے تخلیقی جوہر سے عاری بہت سی خواتین نے کسی گمنام شاعر کے کلام کو گود لیا ہوا ہے، برطانیہ کے علاوہ انڈیا اور پاکستان میں بھی ایسی خواتین کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ منیر نیازی نے کہا تھا کہ دو نمبر شاعر اور شاعرات بہت فعال اور خودنمائی کے شدید مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ اور یورپ بھر میں اردو کے تک بند شاعر اور شاعرات شہرت اور پہچان کی تلاش میں دن رات ہلکان ہوئے پھرتے ہیں، کئی کئی شعری مجموعوں کی اشاعت اور نام نہاد انٹرنیشنل مشاعروں میں نمائندگی سے بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی تو رہی سہی کسر فیس بک اور وٹس ایپ کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔یو ٹیوب پر اپنے ٹی وی چینل شروع کر کے اینکرپرسن بن جانے کی بھیڑ چال نے اردوزبان اور شاعری کے معیار کو ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے ۔ یہ تمام جتن کرنے کے بعد بھی کچھ نام نہاد شاعروں اور شاعرات کی خودنمائی کے جذبے کی تسکین نہیں ہوتی تو وہ مختلف یونیورسٹیز میں اپنی شاعری پر ایم اے اردو کے تھیسز یا اپنے فن اور شخصیت پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھوانے کے لیے ہر وہ حربہ آزماتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب ہوسکیں۔
کیا شاعری واقعی آسان ذریعہ شناخت ہے یا اس عاشقی میں عزت سادات چلے جانے کا اندیشہ ہوتا ہے…شاعری تو ایسا تخلیقی جوہرہے جو قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتا ہے۔ محنت، مشقت، بھاگ دوڑ اور تک بندی سے کوئی شاعر نہیں بن سکتا۔ تک بند شاعر یا شاعرہ ہونے سے زیادہ بہتر ہے کہ انسان اچھا سخن فہم اور شعر شناس ہو اور یہ بات زیادہ باعث عزت ہے، بے تکی شاعری اور بے رونق مشاعرے کیا برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی خدمت کا وسیلہ ہیں یا محض اپنا رانجھا راضی کرنے کا بہانہ؟ یہ صورت حال برطانیہ میں اردو سے محبت کرنے والے ہم سب لوگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ویسے تو اردو زبان میں تمام نامساعد حالات کے باوجود خود کو زندہ رکھنے کا وصف موجود ہے لیکن اس سلسلے میں بنیادی مسئلہ معیار کا ہے با لخصوص شاعری جو کہ اردو زبان کا نفیس ترین پیرایہء اظہار ہے اس کے معیار کو بہرصورت قائم رہنا چاہئے۔ تک بندی سے نہ صرف شاعری کے وقار پر حرف آتا ہے بلکہ شاعری کے باذوق مداحوںکے مزاج پر بھی بے وزن شاعری اور تک بندی گراں گزرتی ہے۔مشاعروں میں بے وزن کلام سنائے جانے سے تک بندوں کی خودنمائی کی تسکین تو ہو سکتی ہے اس سے اردو زبان وادب کی کوئی خدمت نہیںہوتی۔ گلوکاروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جو جتنا بے سُرا ہوتاہے اسے اتنا ہی زیادہ گانے کا شوق ہوتا ہے۔گانے سے یاد آیا ، شہرت کے بھوکے ہمارے بہت سے شاعروں کا خیال ہے کہ اگر کوئی برا اور نامور گلوکار ان کی غزلیں گا دے تو اس سے وہ راتوں رات مشہور ہو سکتے ہیں چنانچہ وہ اس ذریعے سے بھی اپنے نام اور کلام کو دوام بخشنے کے لیے گلوکاروں سے تعلقات استوار کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ آجکل شاعروں میں بھی یہ رجحان عام ہو گیا ہے کہ جو جتنا بڑا تک بند ہے اسے مشاعروں میں اتنا ہی زیادہ کلام سنانے ، تنظیمیں بنانے اور فیس بک پراپنی دھاک بٹھانے کا شوق ہے۔ شاعری کے ضمن میں جو مرحلہ مشق سخن اور سیکھنے کاہوتاہے اب لوگ اس مرحلے کے آغاز میں شعری مجموعہ شائع کروا لیتے ہیں اب کون انہیں سمجھائے کہ
؎ عمر یہ ترتیب دینے کی نہیں
اور محنت کر ابھی دیوان پر
ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ بھر میں ہونے والے مشاعروں میں سیکڑوں حاضرین اور دس پندرہ شاعر شریک ہوتے تھے اور اب یہ عالم ہے کہ بیشتر مشاعروں میں تیس سے چالیس حاضرین ہوتے ہیں جن میں بیس پچیس شاعر ہونے کے دعویدار پائے جاتے ہیں ایسے مشاعروں اور ادبی تقریبات سے نہ تو اردو کی کوئی خدمت ہوتی ہے اور نہ اردو زبان کے قدر دانوں کے ادبی ذوق کی تسکین ہو پاتی ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی طرح کئی ادبی تنظیموں نے پورے یورپ میں اپنی شاخیں قائم کرنا شروع کردی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن کو ان تنظیموں کی شاخوں کا عہدیدار بنایا جاتا ہے ، انہیں چیف ایگزیکٹو، ڈائریکٹر جنرل ، چیئرمین اور اسی طرح کے بڑے بڑے منصب دیے جاتے ہیں، یوں لگتا ہے کہ وہ کوئی بہت بااختیار سرکاری افسربنا دیے گئے ہیں جن کی سالانہ تنخواہوں پر لاکھوں پونڈ ؍یورو ہوگی جبکہ الاؤنسز اس کے علاوہ ہوں گے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ برطانیہ کے مختلف شہروں اور بالخصوص لندن میں چھوٹی چھوٹی تنظیموں کی بجائے ایک مشترکہ اور بڑی تنظیم قائم کی جائے جو واقعی معیاری اردو شاعری اور نثر لکھنے والوں کو نہ صرف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرے بلکہ سال میں ایک بار اردو کے جینوئن ادیبوں اور شاعروں کے مل بیٹھنے کا بھی اہتمام کرے۔ اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ سے نہ تو کوئی مسجد بنا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی عمارت تعمیر ہو سکتی ہے۔ نئی نسل کو اردو سکھانے اور پڑھانے کا معاملہ تو ایک الگ موضوع ہے جس پر آئندہ کسی کالم میں بات ہو گی فی الحال معاملہ اردو کے اُن ادیبوں اور شاعروں کا ہے جنہوں نے پاکستان کے بیشتر اُردو چینلز کی طرح معیار کو اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔ اردو کے معیار کو اس لئے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہئے کہ اس زبان سے ہماری تہذیب وابستہ ہے یہ ہماری شناخت کا حوالہ اور پہچان کا جواز ہے۔اردو زبان کے معیار کا تحفظ اوراردو کے ہر اچھے ادیب اور شاعر کی ذمہ داری ہے۔ معیاری ادب کی تخلیق ہی اردو کی بڑی خدمت ہے ۔ برطانیہ اور یورپ میں آباد اردو کے شاعروں اور ادیبوں کی مثال اس مچھلی کی طرح ہے جنہیں بوتل میں بند کر کے سمندر میں پھینک دیا گیا ہے اور اگر انہیں اپنی زبان اور ادب کی آکسیجن بھی میسر نہ آئی تو گھٹن کے باعث وہ وقت سے پہلے ہی دم توڑ دیں گے۔
آج کے دور کی بیشتر شاعرات راتوں رات پروین شاکر بننا چاہتی ہیں جب کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتی ہیں کہ پروین شاکر ایک جینوئن شاعرہ تھیں اور انہوں نے کسی بھی طرح کی نمود و نمائش کی خواہش سے بالاتر ہو کر صرف اور صرف اچھی شاعری تخلیق کرنے، اعلیٰ تعلیم کے حصول اور عالمی ادب کے سنجیدہ مطالعے کی طرف اپنی توجہ مرکوز رکھی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے تخلیقی سفر کو جاری رکھا۔ اگر پروین شاکر بھی صرف مشاعرے پڑھنے، اینکر پرسن بننے، اپنی شاعری پر مقالات لکھوانے یا ایم فل اور پی ایچ ڈی کروانے کے چکر میں پڑ جاتیں تو کبھی اچھی شاعری تخلیق نہ کر سکتیں اور نہ ہی اُن کی شاعری کو شہرت دوام مل سکتی۔ آج کے دور کی اکثر شاعروں اور شاعرات کی مثال چچا چھکن کی اس سائیکل کی طرح ہے جس کی گھنٹی کے علاوہ سب کچھ بجتا ہے۔ یعنی آج کے شاعروں کی پوری توجہ اچھی شاعری تخلیق کرنے کے سوا ہر اُس چیز پر ہے جس سے راتوں رات وہ پروین شاکر اور احمد فراز کی طرح مشہور اور نامور ہو جائیں۔