212

اسٹیبلشمنٹ کا امتحان

حکومت نے تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کی آخری قسط بھی مبظور کرکے قومی اسمبلی سے باہر کر دیا ہے تحریک انصاف نے اپنے آخری 45 اراکین اسمبلی کو بچانے کی بڑی کوشش کی تحریک انصاف کا مقصد یہ تھا کہ ان کے باقی ماندہ اراکین اسمبلی ایوان میں جاکر اپوزیشن لیڈر کامنصب منحرف رکن اسمبلی راجہ ریاض سے چھین کر اپنے کسی رکن کے حوالے کریں گے اور کل کو نگران وزیراعظم کے تقرر میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے لیکن سپیکر قومی اسمبلی اور چیرمین الیکشن کمیشن نے ان کی ایک نہ سنی استعفوں کی چوتھی قسط میں سب کو فارغ کر دیا اب صرف 2 ارکان بچے ہیں جنھوں نے رخصت کی درخواست دے رکھی تھی تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی اسمبلیاں خود ہی تحلیل کر چکی قومی اسمبلی سے ان کے استعفے منظور ہو چکے اب صرف سینٹ میں ان کی نمائندگی باقی بچی ہے حکومت پنجاب اور خیبر پختون خواہ میں اپنی مرضی کے نگران وزیر اعلی بنوانے میں کامیاب ہو گئی ہے خیبر پختون خواہ کے نگران وزیر اعلی سے تو توقع کی جاتی ہے کہ ان کی ذات پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا لیکن پنجاب میں تو پی ڈی ایم والے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ پنجاب میں اپنی بغل بچہ حکومت بن گئی ہے اب پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت کے لیے گلیاں سنجیاں ہو چکی ہیں اور اب مرزا یار کی مرضی ہے وہ کیا کرتا ہے بظاہر تو اب دو تین ماہ وفاقی حکومت کی من مرضی چلے گی لیکن دوسری جانب سو سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستوں پر دو ماہ کے اندر انتخابات ہونا ضروری ہیں خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں تین ماہ کے اندر انتخابات ہونا آئینی قدغن ہے پتہ نہیں پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت نے کیا سوچ کر استعفے منظور کیے ہیں وہ کس طرح قومی اسمبلی اور دو صوبوں کی اسمبلیوں کے الیکشن کو کس طرح ملتوی کر پائیں گے اگر الیکشن میں تاخیر نہیں ہوتی تو حکومت دو آڑھائی ماہ میں کیا کر لے گی آخر کار انھیں انتخابات فیس کرنا پڑیں گے لیکن دو آڑھائی ماہ حکومت کے پاس فری ہینڈ ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت تحریک انصاف کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے تحریک انصاف کے پاس صرف اور صرف عوامی مقبولیت کا ہتھیار ہے اگر تو عمران خان بہت بڑے پیمانے پر عوام کو سڑکوں پر لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو حکومت پر دباو بڑھا کر انھیں انتظامیہ کو راہ راست پر رکھ سکتے ہیں ورنہ وفاقی حکومت نے اپنی مورچہ بندی کر لی ہے پنجاب میں آئی جی اور چیف سیکریٹری اپنی مرضی کے تعینات کر لیے ہیں اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا حکومت یہ تاثر دے رہی ہے کہ عمران خان نے دو صوبائی حکومتیں ختم کر کے اپنے پاوں پر کلہاڑی مار چکے ہیں اور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کی غلطی کا اب انھیں احساس ہو رہا ہے اب یہ قابو آچکے ہیں ہم یہی چاہتے تھے جبکہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ حکومت الیکشن سے بھاگ نہیں سکتی ہم نے سیاسی طور پر سارے راستے بند کر دیے ہیں الیکشن کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا اسمبلیوں کی تحلیل کے باوجود الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں ہو رہا جس پر بھی تحریک انصاف کو تشویش ہے البتہ پنجاب حکومت ختم ہونے سے میاں نواز شریف کی واپسی کی ایک شرط پوری ہو گئی ہے میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت قائم ہو گی تو وہ واپس آئیں گے ن لیگ کی حکومت تو نہیں بن سکی لیکن تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی ہے اب پنجاب میں نگران حکومت بن چکی ہے اب نواز شریف کی جگہ مریم نواز واپس آ رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اگلے ماہ میاں نواز شریف کی بھی واپسی ہو جائے گی اب پنجاب میں حالات ن لیگ کے لیے سازگار ہو چکے ہیں لیکن تاحال الیکشن مہم شروع ہوتی نظر نہیں آ رہی نہ جانے پی ڈی ایم کس منصوبے پر عمل پیرا ہے اب اصل میں اسٹیبلشمنٹ کا امتحان شروع ہونے والا ہے کیا اسٹیبلشمنٹ پی ڈی ایم کو من مانی کرنے دے گی اور وہ اپنے مخالفین کے ساتھ جو چاہے سلوک کرے یا ماحول کو غیر جانبدار رکھنے میں اپنا کوئی کردار ادا کرے گی کیونکہ تاحال دونوں طرف سے کیے جانے والے اقدامات سے تو لڑائی بڑھتی ہوئی نظر آ رہی ہے