لندن میں مجھے کچھ عرصے کے لیے ایک ایسی فرم میں کام کرنے کا موقع ملا جہاں ملازمین کی اکثریت انگریزوں پر مشتمل تھی۔ اس فرم میں ویک اینڈ پر کام کرنے کا معاوضہ دو گنا اور لنچ کی مفت سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ یہ ایک بہت بڑی سٹیشنری فرم تھی جس کے ملازمین کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔اپنی شفٹ کے دوران یہاں ہر ملازم اپنے کام میں مگن نظر آتا۔ایسا لگتا تھا کہ لوگ وقت گزارنے نہیں بلکہ اپنا کام اور ذمہ داری نمٹانے کے لیے ملازمت کر رہے ہیں۔ اس کمپنی میں ملازمت کے دوران میں نے مشاہدہ کیا کہ یہاں جاب کرنے والوں کی اکثریت اپنے مقررہ وقت سے کچھ دیر پہلے ہی اپنے اپنے ڈیپارٹمنٹ میں پہنچ جاتی اور بہت خوش اسلوبی اور سلیقے سے اپنے کام کو انجام دیتی۔ ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا کہ کوئی ملازم تاخیر سے اپنی شفٹ پر پہنچا ہو اور اپنے کام کو جلد بازی سے کرنے کی کوشش کی ہو۔ ویسے بھی جلد بازی انگریزوں کی اکثریت کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔ پورے برطانیہ میں اگر کسی مزدور کو بلند عمارت پر تعمیراتی یا مرمت کے کام کے لیے چڑھنا ہو تو وہ جلد بازی میں محض سیڑھی لگا کر اپنا کام شروع نہیں کرتے بلکہ ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر کام شروع کرتے ہیں۔ یعنی ہیلمٹ اور حفاظتی بیلٹ کے علاوہ گلوز اور سکیفولڈنگ کا استعمال کرتے ہیں۔ اگر کسی سڑک کے کنارے پر کوئی معمولی گڑھا بھی کھودناہو تو پہلے حفاظتی باڑ اور عارضی ٹریفک لائٹ لگا کر کام شروع کیا جاتا ہے۔یونائیٹڈ کنگڈم کا کوئی بس سٹاپ ہو یا پوسٹ آفس،کوئی کارنر شاپ ہو یا بڑا سٹور جہاں کہیں ایک سے زیادہ لوگ ہوں گے قطار بنا کر کھڑے ہو جائیں گے۔قطار چاہے کتنی ہی لمبی ہو لوگ صبر و تحمل سے اپنی باری کا انتظار کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر میں زندگی کی رفتار تیز ہوتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ ہر کسی کو کہیں نہ کہیں پہنچنے کی جلدی ہے۔ اس اعتبار سے لندن ایک مختلف شہر ہے۔ یہاں گہما گہمی تو بہت ہے لیکن لوگ جلد باز نہیں ہیں۔ ویسے بھی وسطی لندن (سنٹرل لندن) اور اس کے گرد و نواح میں ٹریفک کی آمد و رفت کو محدود کر کے حد رفتار 20 میل فی گھنٹہ مقرر ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں کاریں اور بسیں چل نہیں رہیں بلکہ رینگ رہی ہیں۔ برطانوی سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ یا پھر بڑے بڑے بزنس مین، یعنی تاجر ہی کیوں نہ ہوں ان کے طرز عمل میں کہیں کسی قسم کی جلد بازی کا عنصر نظر نہیں آتا۔ یہ لوگ اپنے اور اپنے لوگوں کے لیے جو بھی حکمت عملی بناتے ہیں اس میں وقتی فائدے کو پیش نظر رکھنے کی بجائے دور اندیشی سے کام لیتے ہیں۔ اپنی آئندہ نسلوں کی بھلائی کا سوچتے ہیں۔ یو کے میں اگر کسی دو طرفہ سڑک کے ایک طرف کوئی حادثہ ہو جائے یا کسی کی گاڑی خراب ہو جائے تو کوئی ڈرائیور اپنی قطار سے نہیں نکلتا یا اوورٹیک کر کے دوسری طرف سے آنے والی گاڑیوں کا راستہ بلاک نہیں کرتا۔یہاں بچوں کو پرائمری سکولوں سے صبر و تحمل کی تربیت دی جاتی ہے، جلد بازی سے گریز کی تلقین کی جاتی ہے۔شاید انگریزوں نے اس حقیقت کا راز پا لیا ہے کہ جو کام بھی جلد بازی میں کیا جائے گا اس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اسی لیے انگریزوں کی اکثریت جلد از جلد امیر ہونے کے خبط میں بھی مبتلا نہیں ہوتی محنت کر کے نتائج کا انتظار کرتی ہے۔ ملاوٹ یا دو نمبری کر کے مال بنانے کے چکر میں نہیں رہتی کیونکہ انہیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں فراڈ اور دو نمبری کرنے والے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے اور ویسے بھی جلد بازی انسان کو سب سے پہلے سکون اور اطمینان سے محروم کر دیتی ہے۔ جلد بازی بنیادی طور پر انسان کی سرشت میں شامل ہے۔ اللہ رب العزت نے قران پاک میں بھی یہ حوالہ دے کر باور کرایا ہے کہ ”انسان جلد باز ہے”۔بعض ملکوں اور قوموں میں یہ جلدبازی اپنی انتہا پر نظر آتی ہے۔ پاکستان میں شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں جہاں کھانا وافر مقدار میں موجود ہو وہاں جس طرح لوگ کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نے ”صبر و تحمل” کا دامن کتنی مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔ حالانکہ ہم مسلمانوں کو بچپن سے یہ بات بار بار بتائی جاتی ہے کہ جلد بازی کا کام شیطان کا اور صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ جو کھانا دھیمی آنچ پر پکتا ہے اس کا ذائقہ بھی عمدہ ہوتا ہے۔ میں نے مسجدوں میں اپنے بہت سے ایسے مسلمان بھائیوں کو بھی دیکھا ہے جو اتنی جلدی میں ہوتے ہیں کہ اللہ کے گھر میں چند منٹ گزارنا انہیں مشکل لگتا ہے۔ ہم مسلمانوں کی اکثریت اپنے فوری فائدے کے لیے جس طرح شارٹ کٹ کی تلاش میں رہتی ہے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے جلد باز ہیں۔ ہمارے تاجر جلد از جلد اور زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی ہوس میں دودھ اور شہد تک میں ملاوٹ سے باز نہیں آتے، جعلی دوائیں بنانے اور فروخت کرنے پر ان کا ضمیر ملامت نہیں کرتا، ہمارے سیاست دان جلد سے جلد اقتدار اور اختیار حاصل کرنے کے لیے ہر اصول اور جمہوری تقاضے کو بالائے طاق رکھ کر فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کو اپنے لیے اعزاز سمجھنے لگتے ہیں۔ ہمارے صحافی جلد از جلد کروڑپتی بننے کے لیے کسی بھی طرح کے سمجھوتے اور جھوٹ بولنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنماؤں پیروں اور عاملوں کو بھی راتوں رات کروڑ پتی بننے کا مرض لاحق ہے۔ جس معاشرے کے لوگ جلد باز اور زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی عجلت میں ہوں وہاں ڈبل شاہ جیسے کریکٹر بڑی آسانی سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہیں۔ شاید آپ میں سے کسی نے وہ حکایت پڑھی یا سنی ہو جس میں ایک ملک کا بادشاہ اپنے ہمسایہ ملک کے خزانے لوٹنے کے لیے بغیر تیاری کے اپنی نا تجربہ کار فوج کے ذریعے حملہ کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑتی ہے۔ اس کے سپاہی اور سپاہ سالار مارے جاتے ہیں۔ بادشاہ شکست سے دوچار ہونے کے بعد ذلیل و خوار ہو کر ایک بستی میں جا نکلتا ہے اور بڑھیا کے مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ غریب بڑھیا کے گھر میں کھانے کے لیے کچھ نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مفلوک الحال مہمان کو بکری کے دودھ اور چاول سے کھیر بنا کر دیتی ہے۔ بادشاہ بھوک سے نڈھال ہونے کی وجہ سے جلدی جلدی پیالے کے بیچ میں انگلیوں سے کھیر کھانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی زبان اور انگلیاں جھلس جاتی ہیں۔ بڑھیا یہ منظر دیکھ کر کہتی ہے کہ اے مسافر تم بھی اس بادشاہ کی طرح جلد باز ہو جس نے بغیر تیاری کے سوچے سمجھے بغیر جلد بازی میں ہمارے ملک پر حملہ کر دیا اور ذلیل و خوار ہوا۔تم اگر گرم کھیر کو پیالے کے کنارے سے کھانا شروع کرتے اور جلد بازی میں پیالے کے درمیان میں انگلیاں نہ مارتے تو تمہاری زبان اور انگلیاں جھلسنے سے محفوظ رہتیں۔ اگر اپ کسی دعوت یا بڑی تقریب میں لوگوں کو کھانا کھاتے ہوئے دیکھیں تو لگتا ہے کہ وہ بہت جلدی میں ہیں یا پھر کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کھانا اپنے پیٹ میں محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے وہ آدھا کھانا کھاتے اور آدھا کھانا ضائع ہونے کے لیے پلیٹوں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ انگریزوں کی اکثریت مقدار کے حساب سے بہت تھوڑا کھانا کھاتی ہے اور بہت رغبت سے اپنے کھانے کو انجوائے کرتی ہے۔ ان کے خیال میں ہم جس کھانے کے لیے ملازمت یا محنت کرتے ہیں اسے تسلی اور اطمینان سے کھانا چاہیے۔ معلوم نہیں شیطان انگریزوں کو جلد بازی پر کیوں نہیں اکساتا؟ ہم جیسے بہت سے تارکین وطن انگریزوں کو جلد بازی سے مبرا دیکھ کر حیران ہوتے ہیں۔ لندن شہر میں اگر کوئی دس منزلہ عمارت یا اس سے بھی اونچی بلڈنگ گرائی جانی ہو تو پہلے اس کے سروے اور پلاننگ پرمشن کے بعد اس بلڈنگ کو چاروں طرف سے پردوں سے ڈھانپ دیا جاتا ہے اور پھر جدید مشینوں سے اس عمارت کو اس طرح منہدم کیا جاتا ہے کہ آس پاس والوں کو بھی اس کا پتہ نہیں لگتا۔ جب پردے ہٹائے جاتے ہیں تو ہموار زمین دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے یہاں کوئی عمارت تھی ہی نہیں۔ اس کام میں کئی ہفتے لگ جاتے ہیں لیکن ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔ وطن عزیز میں اگر کوئی بلند عمارت منہدم کرنی ہو تو یہ کام چند دنوں میں ہو جاتا ہے جسے کرنے کے لیے انگریز لوگ کئی ہفتے ”ضائع” کر دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی شہرا یا موٹروے کی صفائی کرنی ہو یا کوئی جانور سڑک پر ا ٓکر مارا جائے تو کئی میل تک حفاظتی باڑ لگا کر ٹریفک کی رفتار کم کی جاتی ہے یا موٹروے کی ایک لین بند کر کے سرکاری عملہ اپنا کام سرانجام دیتا ہے۔پاکستان کے کسی شہر میں اگر آپ کسی مصروف سڑک کی ٹریفک لائٹ پر کھڑے ہو کر دس پندرہ منٹ موٹر سائیکل اور کار سواروں کی جلد بازی کا مشاہدہ کریں یا کسی تقریب اور جلسے میں عوام کے کھانے پر ٹوٹ پڑنے کا جائزہ لیں، چھٹی کے وقت سکولوں اور کالجوں کے مرکزی دروازے پر بے ترتیبی اور ہڑ بونگ کو نوٹ کریں، کسی مشہور اور بڑے ریستوران میں کھانے کی میز خالی ہونے کا انتظار کرنے والوں کی بے تابیاں دیکھیں اور آؤٹ آف ٹرن ترقی کرنے کے لیے سفارشیں کروانے والوں کی پھرتیاں چیک کریں تو یوں لگتا ہے کہ ہم سب کو جلد از جلد کہیں نہ کہیں پہنچنے کی بے چینی ہے، ہم کہاں پہنچنا چاہتے ہیں؟ یہ ابھی ہم سے طے نہیں ہو سکا۔ جلد بازی کے اس رجحان اور فریب نے ہمارے عوام کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ ایک طرف وہ لوگ ہیں جو دنیا میں ہی جلد از جلد کسی مقام تک پہنچنے کے لیے برسرپیکار ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہوں نے کرپشن زدہ معاشرے کے بدلتے ہوئے تقاضے دیکھ کر تقدیر سے سمجھوتہ کر لیا ہے اور سب کچھ روز آخرت پر اٹھا رکھا ہے۔ قابلیت، اہلیت، کارکردگی اور دیانتداری کو اب ترقی کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا جانے لگا ہے۔ اسی لیے پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت ملک چھوڑنے کے لیے طرح طرح کے جتن کرتی اور رسک لیتی اور انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ کر اپنے وسائل اور جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نت نئے تضادات کا مجموعہ بنتا جا رہا ہے۔
؎ کہیں کچے پھلوں کو سنگ باری توڑ لیتی ہے
کہیں پھل سوکھ جاتے ہیں کوئی پتھر نہیں لگتا
(مظفر حنفی)
ہمارے ملک کو اس نہج تک لے جانے کا ذمہ دار کون ہے؟ اس ادراک کے لیے کسی قسم کی تحقیق اور سروے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ذمہ دار وہی لوگ ہیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ”اصل ارباب اختیار” ہیں اور جن کی ”حاکمیت” کے سامنے ملک کے 22 کروڑ سے زیادہ عوام ہمیشہ اپنا سر خم کیے رکھتے ہیں۔
٭٭٭