دوپہلوانوں میں کشتی ہو رہی تھی ایک پہلوان جو ذرا کمزور تھا اس نے ٹھبی مار کر اپنے سے طاقتور پہلوان کو نیچے گرا لیا اور اس کی چھاتی پر بیٹھ گیا اور اوپر بیٹھا ہوا روئے جا رہا ہے کسی نے پوچھا تو نے کشتی جیت لی ہے مخالف کو گرا لیا ہے اس کے اوپر بیٹھا ہوا ہے پھر کیوں رو رہا ہے اس نے جواب دیا جب یہ نیچے سے اٹھے گا تو اس نے مجھے بڑا مارنا ہے یہی حال پی ڈی ایم کی حکومت کا ہے اقتدار پر بیٹھے ہیں لیکن خوفزدہ ہیں کہ اگر الیکشن ہو گیا تو ہمارا کیا بنے گا عمران خان جب اوپر آئے گا تو اس نے ہمیں بڑا مارنا ہے یہ خوف انھیں کھائے جا رہا ہے اور اسی خوف کی وجہ سے وہ سب اصول ضابطے آئین اخلاقیات قانون سب کچھ بالاطاق رکھ کر کوشش کر رہے ہیں جتنا وقت گزر جائے اتنا ہی بہتر ہے پتہ نہیں کل کو کیا ہونا ہے ہر حکومتی رکن دن رات ایک بھی لمحہ ضائع کیے بغیر زیادہ سے زیادہ سمیٹنے کے چکروں میں ہے اور اصلی والی بارودی سرنگیں بچھائی جا رہی ہیں ان کو نظر آرہا ہے کہ آئیندہ اقتدار انھیں ملنے والا نہیں اس لیے وہ آنے والوں کے لیے ایسے گھڑے کھود رہے ہیں کہ وہ کسی صورت بھی معاملات نہ چلا پائیں دوسری طرف الیکشن سے راہ فرار کے سارے راستے معدود ہوتے جا رہے ہیں حکومت بری طرح پھنس چکی ہے اب سارے راستے انتخابات کی طرف جا رہے ہیں اب حکومت نے فیصلہ کرنا ہے کہ انھوں نے دو صوبوں کا الیکشن پہلے لڑنا ہے یا ایک ہی دفعہ جنرل الیکشن میں جانا ہے صدر مملکت نے الیکشن کی تاریخ دے کر حکومت کو پھنسا لیا ہے اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز میں ہر صورت الیکشن کروانا آئینی قدغن ہے اور الیکشن نہ کروانے کی ایک ہی راہ نکل سکتی ہے کہ آئین معطل کر کے مارشل لاء لگا دیا جائے ویسے اس وقت حکومت کی پوری کوشش ہے کہ حالات کو اتنا خراب کر دیا جائے کہ کسی نہ کسی کو مداخلت کرنا پڑ جائے ابھی جو عدالتوں کو ٹارگٹ کیا گیا ہے حکومت اور پی ڈی ایم کی ساری جماعتیں عدالتوں پر نان سٹاپ تنقید کر رہی ہیں اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ اب عدالتیں آئین پر عملدرآمد کروانے کے لیے ایکشن لیں گی عدالتوں کی موجودگی میں آئین سے روگردانی نہیں ہو سکتی یا تو عدالتوں کو بھی ختم کر دیا جائے پی سی او نافذ ہو ایسا ہونا ممکن نہیں اس لیے انتخابات کے سوا کوئی راستہ نہیں چیرمین نیب آفتاب سلطان کے استعفے سے بہت ساری چیزیں عیاں ہو چکی ہیں آفتاب سلطان میاں نواز شریف کا سب سے قابل اعتماد آدمی تھا حکومت نے کس قدر اسے اپنی مرضی کے فیصلوں پر مجبور کیا ہو گا کہ اس نے مستعفی ہونے میں عافیت سمجھی ان کے مستعفی ہونے کے ساتھ ہی ساری پی ٹی آئی کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیے گئے ہیں چیف الیکشن کمشنر کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے اب وہ بھی حکومتی خواہش کی پاسداری کے لیے زیادہ دیر نہیں ٹھر سکتے انھیں یا تو الیکشن کروانے پڑیں گے یا استعفی دینا پڑے گا اب تو نگران بھی بیزار ہو رہے ہیں خیبر پختون خواہ میں گورنر علی محمد اپنے چمڑے کے سکے چلائی جا رہا ہے وہ بیک وقت گورنر بھی ہیں اور وزیر اعلی بھی وہ کلرک سے لے کر آئی جی تک ہر جگہ پر اپنے من پسند افراد کو بٹھانا چاہتا ہے اور نگران وزیر اعلی بیچارا شریف آدمی اس کو نکرے لگایا ہوا ہے اعظم خان بھی سنجیدگی کے ساتھ مستعفی ہونے بارے سوچ رہا ہے حکومت تحریک انصاف کو دبانے کے لیے اداروں کو جس حد تک استعمال کر رہی ہے اب اداروں کے اندر بھی چہ میگوئیاں شروع ہو گئی ہیں کہ سب کچھ کھوہ کھاتے ڈال کر من مرضی کی کارروائیاں نہیں ہو سکتیں کچھ نہ کچھ قانون اور قواعد وضوابط کے مطابق کر لیں سرے سے ہی غیر قانونی طریقوں سے اداروں کو استعمال نہ کریں خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ اداروں کے اعلی افسران کہیں حکومتی احکامات کو ماننے سے انکار نہ کر دیں اگر ایک دو استعفے اور آگئے تو معاملات حکومت کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائیں گے ابھی قومی اسمبلی میں جو غیر قانونی منی بجٹ پاس ہوا ہے اس کو صرف ہاوس میں موجود 61 لوگوں کی حمایت حاصل ہوئی ہے اس کا مطلب ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود حکومتی اراکین کی اکثریت نے بھی اسے مسترد کر دیا ہے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے آخری حربے کے طور پر جیل بھرو تحریک شروع کر دی ہے انھوں نے موثر احتجاج کی بنیاد رکھ دی ہے مہنگائی کے مارے عوام بھی حکومت کے خلاف باہر نکلنے کو تیار ہیں جماعت اسلامی بھی مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے تحریک لبیک والے بھی پیر سے شٹر ڈاون ہڑتال کروا رہے ہیں آپ کو تو پتہ ہے تحریک لبیک کو اپنا احتجاج کامیاب کروانا آتا ہے یہ سب چیزیں جب ڈویلپ ہوں گی تو کیا منظر نامہ بنے گا حکومت کیا کرے گی اب حکومت کے پاس الیکشن میں جانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں حکومت شدید دباو میں آچکی ہے آنے والے چند روز فیصلہ کن ہوں گے۔
199