21 اپریل 1926کو جنم لینے والی ملکہ برطانیہ یعنی کوئین ایلزبتھ دوئم 1952 سے 1956 تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی بھی ملکہ رہی ہیں اور آج بھی دولت مشترکہ (کامن ویلتھ) کے 14 ممالک کی کوئین ہیں۔ آسریلیا اور کینیڈا سمیت بہت سے ملک ایسے ہیں جن کے کرنسی نوٹوں اور سکوں پر ملکہ برطانیہ کی تصویر چھپتی ہے۔ گزشتہ ہفتے برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف خطوں میں کوئین ایلزبتھ کی تاجپوشی کے 70 برس مکمل ہونے پر جشن اور رنگا رنگ تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ گزرنے والے 70 برسوں میں ملکہ برطانیہ نے دنیا کے بہت سے عروج و زوال دیکھے، اس دوران انہوں نے یونائٹیڈکنگڈم کے 14 وزرائے اعظم کے مختلف ادوار میں ہونے والی قانون سازی کے مسودوں کی حتمی منظوری دی۔ وہ برٹش ایمپائر میں سب سے زیادہ عرصے تک ملکہ کے منصب پر فائیز رہنے والی شخصیت ہیں انہوں نے اب تک 21 ہزار سے زیادہ شاہی اور سرکاری تقریبات اور اجلاسوں میں مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کی ہے۔ انہیں چھوٹی عمر سے ہی گھڑ سواری کے علاوہ کتے اور کبوتر (ریسنگ پجن) پالنے کا شوق ہے، وہ روانی سے فرانسیسی زبان بول لیتی ہیں اور وہ اب تک دنیا کے سو سے زیادہ ممالک کے دورے کر چکی ہیں جن میں 1961 اور 1997 میں پاکستان کے سرکاری دورے بھی شامل ہیں۔ ملکہ برطانیہ دنیا کی واحد خاتون ہیں جنہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں جانے کے لئے کسی پاسپورٹ کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح وہ برطانیہ ایسی اکلوتی شخصیت ہیں جو ملک بھر میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر گاڑی چلا سکتی ہیں۔
کوئین ایلزبتھ تازہ دم رہنے کے لئے روزآنہ شیمپین (CHAMPAGNE) کا ایک گلاس پیتی ہیں۔ ملکہ برطانیہ چھ سو فلاحی اور خیراتی اداروں کی مدد اور معاونت کرتی ہیں انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایک ٹرک ڈرائیور کے طور پر بھی رضاکارانہ خدمات انجام دیں۔ کوئین ایلزبتھ دوئم نے ایک شاندار شاہانہ زندگی گزاری ہے برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں کی اکثریت انہیں ایک وضع دار اور نفیس شخصیت کی حیثیت سے جانتی اور اُن کا احترام کرتی ہے۔ ملکہ کی لمبی عمر اور صحت کا راز اُن کے کھانے پینے کے معمولات اور ڈسپلن ہے،وہ رات دیر تک نہیں جاگتیں اور سادہ غذا کھانے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اُن کے اثاثوں کا تخمینہ تین سو ملین پاؤنڈ سے بھی زیادہ لگایا جاتا ہے جبکہ انہیں شاہی اخراجات کے لئے ہر سال تقریباً 40 ملین پاؤنڈ کی خطیر رقم حکومتی خذانے سے ادا کی جاتی ہے۔ چند برس پہلے تک ملکہ کسی بھی قسم کے ٹیکس کی ادائیگی سے مستشنٰی تھیں۔ دنیا بھر میں جس شخصیت کی سب سے زیادہ تصاویر ڈاک ٹکٹوں، کرنسی نوٹوں، سکوں اور پوسٹل آرڈرز پر چھپتی ہیں وہ ملکہ برطانیہ ہیں۔ 1986 میں شاہی نسل کی برطانوی اتھارٹی یعنی BRITISH AUTHORITY OF ROYAL PEDIGREES نے دعویٰ کیا کہ کوئین ایلزبتھ دوئم کا شجرہ نسب 43 ویں پشت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ سے جا ملتا ہے۔ 2018 میں تاریخ دانوں نے اس دعوے کی ازسرنو تحقیقات کیں جن کی تائید سپین، مصراور مراکو کے بعض تاریخ دانوں نے بھی کی۔ جن کے مطابق سپین میں (King of Seville) المعتمد ابن عباد کی چوتھی بیوی زائدہ نے گیارھویں صدی میں ایک بیٹے سانچو کو جنم دیا جس کی اولاد میں سے کسی ایک نے ارل آف کیمبرج سے شادی کی جس کی اگلی نسل سے کوئین ایلزبتھ دوئم کا شجرہ نسب آ ملتا ہے جبکہ المعتمد ابن عباد وہ شخصیت تھے جن کا شجرہ نسب حضرت محمدﷺ کے پوتے حسن ابن علی سے جا ملتا ہے۔ بہت سے مورخین نے اس دعوے کو مسترد بھی کیا لیکن یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ ہم سب حضرت آدمؑ کی اولاد ہیں
؎ ابن آدم ہوں اس لئے فیضان
مجھ کو پیغمبروں سے نسبت ہے
برطانیہ سمیت پوری مغربی دنیا میں ڈی این اے کے ذریعے سے ہر انسان کا شجرہ نسب جاننے یعنی فیملی ٹری کی تحقیق کے لئے بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں کہ جب ہم درجنوں پشتوں تک اپنے آباو اجداد کے بارے میں معلوم کر سکیں گے جس کے لئے ہمیں کسی مورخ کی قیاس آرائیوں کی بجائے جدید سائنسی تحقیق کی صداقت پر انحصار کرنا پڑے گا۔ ملکہ برطانیہ کی تاج پوشی کی پلاٹینیم جوبلی پر برطانیہ میں آباد نسلی اقلیت کے لوگوں نے بھی مختلف نوعیت کی تقریبات کے ذریعے خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور کوئین ایلزبتھ دوئم کی پروقار شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا۔ یونائٹیڈ کنگڈم کی ترقی، خوشحالی اور جمہوری ارتقا کے لئے یہاں کے شاہی خاندان نے جو کچھ کیا اُسے کسی بھی طرح نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ملکوں میں اب بادشاہتیں اور شاہی نظام محض علامتی طور پر موجود ہیں۔ آج کے دور کی بادشاہتوں میں اب مطلق العنانی کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ آج کے دور کے بادشاہ اور ملکہ اور خاص طور پر مغربی ممالک کے شاہی خاندان نہ تو حکم عدولی پر کسی کا سر قلم کروا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کی نافرمانی پر اُسے پابند سلاسل کر سکتے ہیں البتہ مشرق وسطیٰ یعنی مڈل ایسٹ کی مختلف ریاستوں اور ملکوں کے بادشاہ آج بھی عوام کے انسانی حقوق کو بالائے طاق رکھ کر من مانیاں کرنے میں پیش پیش ہیں اور پورے شاہی ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ اقتدار اور اختیار سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ملکہ برطانیہ نے جب پرنس فلپ کے ہمراہ 1961 میں پہلی بار پاکستان کا دورہ کیا تو اس وقت جنرل ایوب خان ملک کے صدر تھے، کراچی پاکستان کا دارالحکومت تھا ملکہ کے اعزاز میں ایک شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ کراچی میں ہونے والی اس یادگار تقریب میں کوئین ایلزبتھ نے پاکستان کی صنعتی ترقی پر خوشی کا اظہار کیا اور تعلیم کے شعبے میں پاکستانی قوم کو آگے بڑھتے دیکھ کر اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ ملکہ کو بحری جہاز پر سمندر کی سیر کروائی گئی، بعد ازاں انہوں نے مزار قائد پر پھول چڑھائے۔ اس دورے کے دوران کوئین ایلزبتھ متحدہ پاکستان کے مختلف شہروں پشاور، راولپنڈی، سوات، لاہور، ڈھاکہ اور چٹاگانگ بھی گئیں جہاں اُن کے اعزاز میں رنگا رنگ تقریبات ہوئیں۔ انہیں سوات کی آب و ہوا اور خوبصورت مناظر بہت پسند آئے جہاں انہوں نے دو دن قیام کیا۔ اس موقع پر انہیں پاکستان کے نئے دارالحکومت اسلام آباد کی تعمیر اور منصوبہ بندی سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ڈھاکہ میں انہیں دنیا کے سب سے بڑے پٹ سن کے کارخانے کا دورہ کروایا گیا اور بحری بیڑے پر دریائے براہم پترا کی سیر کروائی گئی۔ لاہور کے شالا مار باغ میں ملکہ کو جو استقبالیہ دیا گیا وہ لاہور کی تاریخ میں ایک یادگار اور شاندار تقریب شمار کی جاتی ہے، انہیں شاہی قلعے اور بادشاہی مسجد کا دورہ بھی کروایا گیا۔یہ وہ دور تھا جب پاکستان تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کررہا تھا، تعلیمی اور صنعتی شعبوں میں روشن مستقبل کے امکانات واضح ہو رہے تھے اور پوری قوم اپنے ملک کی تعمیر اور خوشحالی کے لئے خلوص نیت کے ساتھ سرگرمِ عمل تھی۔لیکن پھر اسلامی جمہوریہ پاکستان مفاد پرستوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہوں نے اسے نہ اسلامی رہنے دیا اور ہی جمہوری، جس کا خمیازہ آج تک ملک کا محروم طبقہ بھگت رہا ہے۔
دوسری اور آخری بار جب ملکہ برطانیہ نے پاکستان کا دورہ کیا تو اس مملکت خدادا کی آزادی کو نصف صدی ہو چکی تھی۔ 1997 میں پاکستان کی آزادی کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی تھی، فاروق لغاری ملک کے صدر اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ پاکستان دولخت ہو چکا تھا، مشرقی پاکستان اب بنگلہ دیش کہلاتا تھا، مغربی پاکستان کا دارلحکومت بھی تبدیل ہو چکا تھا ملکہ کا استقبال صدر فاروق لغاری نے اسلام آباد میں کیا۔ ایوان صدر میں کوئین ایلزبتھ کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا، اس سے پہلے انہیں فیصل مسجد کا دورہ کرایا گیا،انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے بھی خطاب کیا۔ ملکہ اور ڈیوک آف ایڈنبرا پرنس فلپ نے راولپنڈی میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا میچ بھی دیکھا۔ لاہور میں اُن کے اعزاز میں ایک شاندار عشائیہ شاہی قلعے میں دیا گیا جبکہ انہوں نے لاہور میں ایک گرجا گھر کا بھی دورہ کیا۔
ملکہ برطانیہ کے پہلے اور آخری دورہئ پاکستان کے درمیان 36 برس کا طویل عرصہ حائل رہا۔ اس عرصے میں پاکستان طرح طرح کے مسائل، مشکلات اور آزمائشوں کے مرحلے سے گزرا۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی بیس (20) برسوں میں ملک میں ترقی کی جو رفتار تھی وہ آنے والے برسو ں میں سست سے سست تر ہوتی چلی گئی۔ 1960 اور 1970 کا پاکستان خود مختار اور خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وطن عزیز قرضوں اور کرپشن کے منجھدھارمیں پھنستا چلا گیا اور موثر منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہمارے وسائل کو نگلنے لگا اور اب یہ عالم ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی اکثریت بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہوتی چلی جا رہی ہے اور خطِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے اور آنے والے حالات ملک و قوم کے تشویش ناک مستقبل کی خبر د ے رہے ہیں۔ پاکستان کو اس نہج تک پہنچانے میں کسی ایک طبقے کا ہاتھ نہیں ہے، دودھ میں پانی ملانے والے گوالے سے لے کر ایوانِ اقتدار میں بیٹھے بدعنوان سیاستدانوں تک اور رشوت سے پروردہ سرکاری افسروں سے لے کر عدل و انصاف کا سودا کرنے والے منصفوں تک ہر ایک ملک کو اِن حالات تک پہنچانے کا ذمہ دار ہے
اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن کو خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں