Warning: Undefined array key "geoplugin_countryName" in /customers/9/f/a/urdunama.eu/httpd.www/wp-content/themes/upaper/functions.php on line 341
219

آفت زدہ ملک

خود کشی یہ ہی نہیں کہ آپ اپنے گلے میں پھندا ڈال کر لٹک جائیں، زہر پی لیں، اپنے آپ کو گولی مار لیں ٹرین کے آگے کود جائیں بجلی کا کرنٹ لگا لیں، چوہے مار گولیاں کھا لیں یا کسی اونچی جگہ سے چھلانگ لگا لیں یہ بھی خود کشی ہے اور موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے کہ آپ دریا کے بیلٹ میں عمارت بنا لیں اور یہ تصور کر لیں کہ اب کونسا پانی آنا ہے آپ دریا کے کنارے بغیر بنیادیں کھودے کچی مٹی پر اونچی عمارت کھڑی کر لیں آبی گزر گاہوں پر تجاوزات قائم کر لیں یہ سب اقدام خود کشی کے زمرے میں آتے ہیں وارننگ کے باوجود محفوظ مقامات پر منتقل نہ ہونا بھی خود کشی ہے یہ سوچ کر کہ دیکھی جائے گی اپنے آپ کوخطرات کے سپرد کر دینا سب خود کشی کے برابر ہے دریاوں کے پشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے جاری فنڈز کھا جانا پتھروں کی جگہ ریت کا بند بنا کر پیسے ہڑپ کر جانا دہشت گردی ہے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیاریوں کی مختص رقم پر عیاشی کرنا اور کاغذی کارروائیاں کرکے سب اچھا کی رپورٹیں دینا لوگوں پر بم مارنے کے برابر ہے اور مصیبت کے ماروں کی بحالی کے نام پر آنے والے عطیات اور فنڈز کھا جانا تو مردار کا بدبودار گوشت کھانے سے بھی قبیح فعل ہے لیکن ہمارے لوگوں کو مرنا یاد نہیں اسی طرح اگر کسی سڑک پر گڑھا پڑ گیا ہے اور اس کی وجہ سے حادثہ ہو جاتا ہے تو اس سڑک کی دیکھ بھال کرنے والے اس حادثے کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف قتل کے مقدمات درج ہونے چاہیں اگر محکمہ کسی ان فٹ گاڑی جس کی نہ بریکیں درست ہیں نہ باڈی ٹھیک ہے نہ ٹائر درست ہیں اسے فٹنس سرٹیفکیٹ جاری کر رہی ہے تو ان ذمہ داران کو تو سرعام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے اگر کوئی خوراک میں ملاوٹ کرکے بیماریاں پھیلا رہا ہے اور ناقص ادویات تیار کر کے موت بانٹ رہا ہے تو اسے تو چوک میں باندھ کر اس پر بھوکے کتے چھوڑ دینے چاہیں اگر کوئی بلڈنگ انسپکٹر پیسے لے کر غلط عمارت تعمیر کرواتا ہے اور وہ گر جاتی ہے تو اس کے ذمہ داران کو ذبح کر کے اس عمارت کی بنیادوں میں دفن کر دینا چاہیے۔

فرض کریں آپ کو شوگر ہے اور آپ دوائی نہ کھائیں بلکہ دن رات مٹھائیوں پر ہاتھ صاف کریں تو یہ خود کشی ہے اسےاللہ کی کرنی نہ کہیں بلڈ پریشر کا مریض نمکین گوشت کے مزے اڑاے تو وہ اپنی موت کو دعوت دے رہا ہوتا ہے کبھی آپ نے سوچا کہ پاکستان میں روزانہ آٹھ سے دس ہزار چھوٹے بڑے حادثات کیوں ہوتے ہیں اور اس میں روزانہ درجنوں لوگ کیوں مر جاتے ہیں دنیا کے دوسرے ملکوں کی ٹریفک ہم سے بہت فاسٹ ہے لیکن وہاں حادثات کم کیوں ہوتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین اور اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں وہ فٹ گاڑی کو روڈ پر آنے کی اجازت دیتے ہیں ان کی سڑکیں تجاوزات سے پاک ہوتی ہیں وہاں کسی کو اپنی لائن سے دوسرے کی لائن میں آنے کی اجازت نہیں وہاں بااثر افراد کو وائیلشن پر سلوٹ مار کر چھوڑا نہیں جاتا وہاں حفاظتی اقدامات ہر وقت مکمل رکھے جاتے ہیں لوگ ذمہ داری کو فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کی بجائے اسے قسمت اور مقدر سمجھ کر سمجھوتے کر لیے جاتے ہیں ہم ایک حادثے کے بعد دوسرے حادثے کے رونما ہونے کا انتظار کرتے ہیں مجموعی طور پر ہماری بے حسی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے اور ہم اپنے آپ کو عظیم قوم تصور کیے بیٹھے ہیں ذرا غور کریں آپ تو انسان کہلانے کے بھی حق دار نہیں کون سی برائی ہے جو ہم میں نہیں بلکہ ہر غلط کام پر فخر محسوس کرتے ہیں اس وقت پاکستان کا بیشتر حصہ خوفناک سیلاب کی زد میں ہے پاکستان کی بہت بڑی آبادی کا کل مال ومتاع پانی میں بہہ چکا ہے ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہو چکیں لاکھوں جانور پانی نگل گیا پاکستان کی زراعت تباہ ہو گئی جس کے اثرات آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑیں گے پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا ہمارا امپورٹ بل بڑھ جائے گا زراعت اور دیہی صنعت سے وابستہ لوگ بے روزگار ہو چکے سیلاب زدہ علاقوں کی ساری صنعت تباہ ہو گئی ہے مشینری پانی میں بہہ گئی یا چلنے کے قابل نہیں رہی اگلے کئی سال ہمیں سیلاب کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا بدقسمتی یہ کہ نہ ہمارے پاس لوگوں کو بچانے کی کوئی پلاننگ تھی نہ بحالی کی کوئی پلاننگ ہے ہم ہر کام دکھاوئے کے لیے کرتے ہیں ہیلی کاپٹروں پر فضائی جائزوں سے لوگوں کی مصیبتیں کم نہیں ہو سکتیں ہمیں زمین پر اترنا پڑے گا لوگوں تک پہنچنا انھیں خوراک پہنچانا انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا اصل کام ہے سیلابی پانی کی وجہ سے بیماریوں کا جو سیلاب آنے والا ہے اس کی ہم نے کیا تیاری کی ہے ہماری حکومتیں پہلے تو مکمل تباہی کا انتظار کرتی رہی ہیں قبل از وقت اقدامات میں ہم مکمل فیل ہو چکے ہیں اس کے بعد ریلیف کے کاموں کو ہم نے دکھاوئے تک محدود رکھا اب جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اپنوں اور بیگانوں کو آوازیں دے رہیں کہ ہماری مدد کرو سول سوسائٹی میڈیا پر تباہی دیکھ کر متحرک ہوئی ہے بین الاقوامی پابندیوں کے باعث ہم بہت اچھے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جن کا وسیع اور فعال نیٹ ورک تھا ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا حکومتوں پر لوگوں کو اعتماد نہیں کہ ان کے عطیات حق داروں تک پہنچتے بھی ہیں یا سیاسی جماعتوں کے کارکن کھا جاتے ہیں لوگ خود امدادی چیزیں مصیبت زدہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش میں ہیں لیکن زمینی رابطے کٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں صرف ایک ہی منظم ادارہ ہے اور وہ فوج ہے جس کے جوان ملک بھر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کے پاس تربیت بھی ہے اور مشینری بھی ہے ہمارا سول سیٹ اپ انتہائی بوسیدہ ہو چکا سول ڈیفنس کو محکمہ ہم مفلوج کر چکے شتر بے مہار لوگ اپنے طور پر کوششوں میں مصروف ہیں ان کے جذبوں کو سلام جو دل کھول کر مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کر رہے ہیں یقین کریں پاکستان میں درد دل رکھنے والوں کی کمی نہیں قوم مصیبت زدہ بھائیوں کے لیے سب کچھ نچھاور کرنے کے لیے تیار ہے مگر وہ کس کے ذریعے اپنا سامان لوگوں تک پہنچائیں اب افواج پاکستان نے بھی جگہ جگہ ریلیف کیمپ لگا دیے ہیں ہمیں اطمینان ہے کہ لوگ فوج پر اعتماد کرتے ہوئے ریلیف کا سامان وہاں جمع کروا رہے ہیں کیونکہ لوگوں کو اعتماد ہے کہ ان کے دیے ہوئے عطیات حق داروں تک پہنچیں گے بازار میں فروخت کے لیے نہیں جائیں گے لیکن ہمیں ریلیف کے کاموں کے لیے سول سیٹ اپ تیار کرنا چاہیے مذہبی جماعتوں کے پاس اور کچھ فلاحی تنظیموں کے پاس پھر بھی کسی حد تک سیٹ اپ موجود ہیں اور وہ ریلیف کے کاموں میں بھر پور حصہ لے رہی ہیں لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اس میدان میں بھانج نظر آتی ہیں کسی سیاسی جماعت نے اپنے ورکرز کو فلاحی کاموں کی تربیت نہیں دی نہ ہی ان کی تنظیم سازی اتنی موثر ہے جن کے ذریعے ریلیف آپریشن چلایا جا سکے البتہ اس حوالے سے عمران خان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیز غیر ملکی تنظیموں اور ملک کے اندر سے بڑے پیمانے پر فنڈ ریزنگ کر کے لوگوں کی بحالی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ہماری پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ایسے موقع پر جب عوام پانی میں ڈوب رہے ہیں خدارا اپنی ٹانگیں کھینچنے والی سیاست کو کچھ عرصہ فریز کر دیں صرف اور صرف ریلیف کے کاموں پر توجہ دیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا عوامی خدمت کے حوالے سے مقابلہ ہونا چاہیے عوام اگلے الیکشن ووٹ دینے کا معیار سیلاب میں خدمات کو رکھیں حکومتوں کی کارکردگی کو بھی اس حوالے سے جانچا جانا چاہیے کہ کس نے لوگوں کے زخموں پر بہتر مرہم رکھا ہے پاکستان کا بیشتر حصہ آفت زدہ قرار دیا جا چکا ہے لیکن سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان تو یہ ہے کہ یہ تو پہلے ہی آفت زدہ ہے کیا بجلی کے بلوں، مہنگی گیس کی عدم فراہمی، فیول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ خوراک کا عام آدمی کی دسترس میں نہ ہونا آفت نہیں کیا کرپٹ بیوروکریسی ہم آفت کی صورت میں مسلط نہیں کیا پولیس کا جبر اور انصاف کی عدم فراہمی آفت نہیں کیا کرپٹ حکمران آفت نہیں کیا بے روزگاری آفت نہیں جب اتنی ساری آفتیں پہلے سے ہی موجود تھیں تو سیلاب کی آفت تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہے یقین کریں جب تک ہم اپنے ہاتھوں تراشی ہوئی آفتوں سے جان نہیں چھڑوائیں گے ہمیں ایسی قدرتی آفتوں کا سامنا کرتے رہنا ہو گا جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے وہاں کس قدر زلزلے آتے تھے لیکن انھوں نے اپنا بلڈنگ سٹرکچر اتنا لچکدار بنا لیا ہے کہ روٹین کے زلزلوں سے محفوظ رہتی ہیں جن ملکوں میں سیلاب روٹین تھی انھوں نے بڑے بڑے ڈیم بنا کر سیلابوں کے آگے نہ صرف بند باندھ دیے ہیں بلکہ اس پانی کو استعمال میں لا کر ترقی کر لی ہے لیکن ہم ہر سال ڈوبنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں اور خشک سالی میں لو لگنے سے ہلاک ہونے کے بھی منتظر ہوتے ہیں سردیوں میں ٹھٹھر کر مرنے کے لیے بھی تیار ہوتے ہیں۔