پاکستان میں رہائش پذیر امریکی خاتون سنتھیا رچی نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2011 میں جس وقت اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے جسکی وجہ سے انہیں 2 سال کے ورک ویزہ کے حصول کیلئے وزیر داخلہ کی ذاتی مدد کی ضرورت پڑھ گئی تھی۔ انکی رحمان ملک سے جان پہچان وزیر صحت کے ذریعے ہوئی تھی اور رحمان ملک نے ویزا کے بارے میں بات کرنے کیلئے اسے منسٹرز انکلیو میں بلایا ، وہ پاکستان میں نئی نئی آئی تھیں اس لیے انہیں پتا نہیں تھا کہ یہ گھر ہے یا دفتر ہے۔
جب وہ رحمان ملک کے گھر پہنچیں تو انہیں پھولوں کا گلدستہ اور سام سنگ کا مہنگا موبائل فون تحفہ کے طور پر دیا گیا۔ مجھے پھولوں کا گلدستہ پیش کیے جانے پر بہت حیرت ہوئی، رحمان ملک نے مجھے ڈرنک پیش کیا، اس دن میں نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی ، انہوں نے مجھے بیٹھنے کا بولا اور کہا کہ تمہارے لیے ایک تحفہ ہے، مجھے سمجھ نہیں آئی کہ اس تحفے کا میرے ویزا سے کیا لینا دینا ہے۔ ہماری ملاقات کے دوران ہی میرا سر چکرانا شروع ہوگیا جس کے بعد مجھے اتنا یاد ہے کہ میں ان کے بیڈ پر تھی۔ سنتھیا رچی نے کہا کہ وہ اعظم سواتی کی بیٹی کی این جی او میں کام کیا کرتی تھیں، اس وقت اعظم سواتی پی ٹی آئی میں جارہے تھے اس لیے رحمان ملک نے مجھے ان کی این جی او چھوڑنے کا کہا اور مجھے 2 ہزار پاؤنڈ دے کر کہا کہ وہ میرے لیے نئی نوکری تلاش کریں گے ، اس دوران میں اس رقم سے اپنے اخراجات پورے کروں ۔ سنتھیا ڈی رچی نے کہا کہ ایسا نہیں ہوا کہ میں نے وہ پیسے اپنے ہاتھوں سے اٹھالیے ہوں، بلکہ ان کے ڈرائیور نے نہ صرف مجھے کپڑے پہننے میں مدد گی، بلکہ یہ تمام چیزیں میرے ساتھ گاڑی میں رکھیں اور اس نے ہی مجھے میرے گھر چھوڑا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ رقم میرے ساتھ آئی تھی اس لیے مجھے رکھنی پڑی، جو موبائل فون انہوں نے مجھے دیا تھا وہ میری جاسوسی کیلئے استعمال ہوا، اور وہ 2 ہزار پاؤنڈ کافی عرصے تک میری ٹیبل پر پڑے رہے اور میں نے انہیں کافی عرصے بعد استعمال کیا۔
مجھے پاکستان آنے کی دعوت خود پیپلز پارٹی نے ہی دی تھی، میں اس واقعہ پر بہت خوفزدہ تھی اس لیے میں نے اس معاملے کو رپورٹ نہیں کیا، انکی والدہ ایک بیوہ خاتون تھیں جو ان کے پاکستان آنے کی وجہ سے پہلے ہی بہت پریشان تھیں، اگر وہ خود کے ساتھ پیش آنے والے ریپ کے واقعے کے بارے میں انہیں بتادیتیں تو یہ ایک بہت بڑا صدمہ ہوتا، انہیں یہ بھی خدشہ تھا کہ کوئی ان کا یقین نہیں کرے گا، اس لیے وہ اس معاملے پر خاموش رہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس معاملے پر اب اس لیے بات کی ہے کیونکہ پی پی کے کچھ لوگوں کی جانب سے انہیں ریپ کی دھمکیاں دی گئیں۔ گزشتہ 2 سال سے میں پی پی اور پی ٹی ایم کے تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہوں، اس وجہ سے پی پی کے کچھ لوگوں نے مجھے ریپ کی دھمکیاں دیں، میرے پاس وہ میسجز بھی ہیں جن میں پیپلز پارٹی کے لوگوں نے مجھے ریپ کی دھمکیاں دیں، اسی لیے میں نے اب 2011 کے واقعے پر اب بولنے کا فیصلہ کیا ہے۔