امریکہ سمیت زیادہ تر مغربی میڈیا شروع دن سے کرونا وائرس پھیلانے کا الزام چین پر لگاتا رہا ہے لیکن حقیقت اب کھل کر سامنے آئی ہے کہ چینی شہر ووہان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا پتہ چلنے سے پہلے کرونا وائرس امریکہ میں موجود تھا، امریکن نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ایک تحقیق سے اس بارے میں معلوم ہوا ہے، یہ تحقیق منگل 15 جنوری کو clinical infectious diseases نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے، اس تحقیق میں امریکہ کی مختلف ریاستوں سے 2020 کے پہلے تین مہینوں کے دوران 24 ہزار افراد کے خون کے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تھا، ان نمونوں میں کرونا وائرس کے بعد بننے والی اینٹی باڈیز کا جائزہ لیاگیا تھا جو عموماً اس وائرس میں مبتلا ہونے کے دو سے تین ہفتوں کے بعد بننا شروع ہو جاتی ہیں۔ خون کے 9 نمونوں میں یہ اینٹی باڈیز موجود تھیں، جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ چینی شہر ووہان میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کا علم ہونے سے پہلے یہ وائرس امریکہ میں موجود تھا۔ ماہرین نے ان 9 پازیٹو کیسز والے افراد سے بعد میں رابطہ نہیں کیا تھا اسلئے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان افراد نے خون کا نمونہ دینے سے قبل بیرون ملک سفر کیا تھا یا نہیں، تاہم یہ ضرور معلوم ہے کہ ان میں سے کوئی بھی فرد نیویارک یا سیاٹل کے قریب نہیں رہتا تھا، جہاں امریکہ میں بیرون ملک سے آنے والے پہلے کرونا وائرس کے مریض کو باقاعدہ طور پر شناخت کیا گیا تھا۔
اس تمام ریسرچ سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ وائرس یا تو قدرتی طور پر پھیلا ہے یا کسی امریکی لیباریٹری سے انسانی غلطی کے ذریعے پھیلا ہے، جیسے بھی اس وائرس کا پھیلاؤ ہوا ہے اس میں کسی فرد یا ادارے کی سوچی سمجھی سازش نظر نہیں آتی کیونکہ اس وائرس نے کسی ایک ملک کی بجائے پوری دنیا کے ہر ملک کو نقصان پہنچایا ہے، لاکھوں لوگ صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں کھربوں ڈالرز کی معیشت کا نقصان ہوا ہے، حقیقت میں یہ وائرس بنی نوع انسان پر ایک عذاب سے کم نہیں ہے لہذا اس پر قابو پانے کیلئے بھی مل جل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، الزام تراشی سے سوائے وقت کے ضیاع کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
#طارق_محمود