اسلام، یہودیت اور مسیحیت کے مشترکہ پیغمبر حضرت ابراھیم علیہ اسلام کے نام پر امریکہ کی ٹرمپ انتظامیہ نے معاہدہ ابراہیم کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے جس کا مقصد اسرائیل فلسطین کے اردگرد عرب ممالک کی مجبوریوں اور کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر انہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے کیلئے ان پر دباؤ ڈالنا ہے۔ ٹرمپ نے یہ سب اسکے یہودی اور یہودیوں سے ہمدردی رکھنے والے سپورٹرز کو خوش کرنے کیلئے شروع کیا تھا کیونکہ پچھلے امریکی الیکشن میں ٹرمپ کے ایک تہائی ووٹرز ایسے ہی قدامت پسند امریکی شہری تھے، لیکن ٹرمپ کی ایسی تمام کوششوں کے باوجود اسے انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسرائیل ایک علاقائی طاقت ہے اور اس نے طاقت کے زور پر فلسطینی اور شامی علاقوں پر ناجائز قبضہ کر کے یہ ثابت بھی کیا ہوا ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اچانک کمزور دفاع والے عرب اور عربی بولنے والے ممالک کے اپنے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرکے اسرائیل کو اب کیا حاصل ہوگا؟ اسکا جواب سادہ ہے کہ اسرائیل کے علاقائی طاقت ہونے کے باوجود دنیا کے اکثر ممالک یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی اور شامی پہاڑیوں سمیت تمام علاقوں کو متنازعہ تصور ہی کرتے ہیں اور اسکے مکمل حل کے خواہاں ہیں، فلسطینیوں سے اظہار یک جہتی کرتے ہوئے عرب ممالک نے مصر اور اردن کے علاوہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے سفارتی تعلقات بھی اسی وجہ سے نہیں رکھے ہوئے تھے اور فلسطینی کمزور حکومت بھی اسے ایک مہرے کے طور پر استعمال کرتی تھی لیکن اب متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت اسرائیل سے ٹرمپ انتظامیہ کے زیر سایہ سفارتی تعلقات بحال کرلئیے ہیں جسکا اسرائیل کو یہ فائدہ ہوا ہے کہ ان ممالک نے اسرائیل کی موجودہ سرحدوں کو تسلیم کرلیا ہے جس سے اب فلسطینیوں کے پاس اپنے آزاد ملک کے دعوے کو ختم کرکے اسرائیلی حکومت کے زیر سایہ رہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
معاہدہ ابراہیم کے سلسلے میں اب سوڈان نے بھی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات استوار کرلیئے ہیں، سوڈان پچھلے تیس سال سے اسامہ بن لادن اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے ارکان کو پناہ دینے کے الزام پر پابندیوں کا شکار تھا، امریکہ نے 1990 سے اسے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست میں ڈال کر دنیا کے بنکاری نظام سے اسکے رابطے ختم کیئے ہوئے تھے اور سوڈان بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے کسی قسم کا کوئی قرض بھی حاصل کرنے سے معذور تھا، سوڈانی معشیت تباہی کے دہانے پر تھی، ایسے میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ ابراہیم میں شامل ہونے پر امریکہ بہادر نے نہ صرف اسے دہشت گردوں کی معاونت کرنے والے ممالک کی فہرست سے نکال دیا ہے بلکہ اسے ایک ارب ڈالر کا قرض دینے پر بھی اتفاق کیا ہے تاکہ وہ عالمی بینک کے پرانے واجبات واپس کر سکے۔ مزید اس معاہدے سے سوڈان نہ صرف بین الاقوامی بینکاری نظام میں شامل ہوجائے گا اور اسے ریاستی قرضوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا موقع ملے گا بلکہ ہر سال یہ عالمی بینک سے ڈیڑھ ارب ڈالرز کا قرضہ بھی حاصل کر سکے گا، یہ رقم قرضوں کے بوجھ تلے دبی سوڈانی معیشت کے لیے بہت ضروری ہے۔
معاہدہ ابراہیم میں شامل ہونے کیلئے اگلا نمبر اب سعودی عرب کا ہوسکتا ہے، ٹرمپ نے اپنے شاطر دماغ سے سعودی عرب کو یمن جنگ میں اربوں ڈالرز کا اپنا اسلحہ بیچ کر دھکیلا ہوا ہے جس سے سعودی عرب کی اپنی معشیت مسائل کا شکار ہوئی ہوئی ہے، اوپر سے سعودی ولی عہد پر جمال خاشقجی کے قتل کا الزام بھی ہے اور نئے امریکی صدر جوبائیڈن نے یہ اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد جمال خاشقجی کے قتل اور یمن جنگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، مزید وہ ایران کے ساتھ اوبامہ دور کا معاہدہ بحال کرنے پر بھی غور کررہے ہیں جس سے امریکہ ٹرمپ دور میں یکطرفہ طور پر نکل گیا تھا۔
اس ساری صورتحال میں سعودی بادشاہ اور طاقتور ولی عہد محمد بن سلمان کو اپنی سانسوں پر ابھی سے دباؤ محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے اور انہوں نے کویت کے تعاون سے اچانک قطر کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات بحال کرلئے ہیں تاکہ خطے میں ایران کے خلاف عرب اتحاد کو مضبوط کیا جاسکے اور امریکی معاہدے کے بعد ایرانی معشیت مضبوط ہونے پر ایران کے توسیع پسندانہ عزائم کو کنٹرول کرنے کی بھرپور کوشش کی جائے، ان تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے کوئی بعید نہیں ہے کہ سعودی ولی عہد جو پہلے ہی اسرائیلی وزیراعظم سے خفیہ ملاقات کرچکے ہیں امریکی دباؤ پر اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرلیں۔ فلسطینیوں کو چاہئیے کہ وہ مزید جانی و مالی نقصان سے بچیں اور اسرائیلی حکومت کے زیر سایہ زندگی گزارنے کی عادت ڈال لیں تاوقتیکہ عیسی علیہ اسلام کا ظہور ہو اور وہ انہیں اسرائیل سے آزادی دلائیں اسکے علاوہ اب کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے😢۔
#طارق_محمود