یہ لندن کا ایک شاندار اور پُروقار کانفرنس ہال تھا جہاں پروفیسر ائن ولمٹ (IAN WILMUT) کو خطاب کرنا تھا، لیکچر سننے والوں میں پورے برطانیہ سے آئے ہوئے اہم سائنسدان اور بیالوجی کے طلباء وطالبات شامل تھے۔ یہ وہی پروفسیر ولمٹ تھے جنہوں نے پہلی بار کلوننگ کے ذریعے ایک ایسا سائنسی کارنامہ انجام دیا جو سٹیم سیل (STEM CELL) اور ایمبریولوجی پر تحقیق کرنے والوں کے لئے نئے اور حیران کن امکانات کا سنگِ میل بن گیا۔ ائن ولمٹ نے اپنے لیکچر میں بتایا کہ اُن کی تحقیق سے آنے والے دِنوں میں بنی نوع انسان کو پارکنسن، ہارٹ اٹیک اور سٹروک جیسے خطرناک امراض سے بچایا جا سکے گا۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ کلوننگ کے ذریعے 1996ء میں جو بھیڑ (ڈولی) پیدا کی گئی تھی اس کارنامے کا 66فیصد کام اُن کے ساتھی سائنسدان کیتھ کیمبیل نے کیا تھا۔ پروفیسر ولمٹ ایمبریولوسٹ اور پی ایچ ڈی تھے لیکن کبھی اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر نہیں لکھتے تھے۔ وہ اپنے سائنسی کارناموں کا کریڈٹ اپنی ٹیم اور اپنے ساتھی سائنسدانوں کو دیتے تھے۔ وہ 7جولائی 1944ء کو وارکشائیر میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ریاضی کے استاد تھے جو اپنی آخری عمر میں ذیابیطس(شوگر) کے مرض کی وجہ سے نابینا ہو گئے تھے۔ ائن ولمٹ نے ابتدائی تعلیم کے بعد سکاربرو کے اُسی بوائز ہائی سکول میں داخلہ لیا جہاں اُن کے والد پڑھایا کرتے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے ڈارون کالج سے پوسٹ گریجوایشن کی۔ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے خود کو سائنسی تحقیق کے لئے وقف کر دیا اور ایڈنبرایونیورسٹی کے روزلِن انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ہو گئے اور بہت سے اعزازات اور ایوارڈ کے علاؤہ 1999ء میں انہیں ملکہ برطانیہ کی طرف سے او بی ای کا اعزاز دیا گیا اور 2008ء میں انہیں نائٹ ہڈ یعنی سر، کا خطاب ملا۔ پروفیسر ڈاکٹرسر ائن ولمٹ 10ستمبر 2023ء کو پارکنسن کے مرض کی وجہ سے 79برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اُن کے انتقال پر برطانیہ کے اخبارات نے خصوصی مضامین شائع کئے اور ٹی وی چینلز نے اُن کے سائنسی اور تحقیقی کارناموں کو سراہا۔ ائن ولمٹ کی دو کتابیں 1دی سیکنڈ کری ایشن(ڈولی اینڈ دی ایج آف بائیولوجیکل کنٹرول)2 اینڈ آفٹر ڈولی (دی یوزز اینڈ مِس یوزز آف ہیومن کلوننگ) بہت اہم تحقیقی تصانیف ہیں جو انہوں نے اپنے دیگر ساتھی سائنسدانوں کے ساتھ مل کر لکھیں۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں سائنس کی تعلیم اور تحقیق کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کئی صدیوں سے برطانوی سائنسدانوں نے اس کرۂ ارض پر ایسے کارنامے انجام دیئے جن سے پوری دنیا اپنی بقا تک استفادہ کرتی رہے گی۔دنیا کے ایسے عظیم سائنسدانوں میں سے درجنوں کا تعلق برطانیہ سے ہے جنہوں نے انسانیت کی فلاح وبہبود کے لئے بے مثال خدمات انجام دیں۔ اِن برطانوی سائنسدانوں میں سر آئزک نیوٹن اور چارلس ڈارون سے لے کر کمپیوٹر کی بانی ادا لوولیس (ADA LOVELACE)، پنسلین کے موجد اور نوبل انعام یافتہ الیگزنڈر فلیمنگ اور سٹیفن ہاکنگ کے نام شامل ہیں۔ آج کی جدید دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں نئی سے نئی تحقیق اور ایجادات میں برطانوی سائنس دانوں نے کوئی کسر چھوڑی ہو۔ ماڈرن ٹیکنالوجی کی وجہ سے اب یہ معلوم کرنابھی آسان ہو گیا ہے کہ سترھویں صدی سے آج تک کس ملک اور کس قوم نے سائنسی تحقیق اور جستجو کواپنی ترجیحات میں شامل کر کے کیا کچھ دریافت اور ایجاد کیا ہے۔ بدقسمتی سے گذشتہ چار صدیوں میں مسلمانوں اور برصغیر کے حکمرانوں کی ترجیحات مغربی اقوام سے یکسر مختلف رہی ہیں۔ مسلمان ملکوں میں جس طرح کے نظام تعلیم اور نصاب کاملغوبہ بنا کرنئی نسل پر مسلط کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں رٹو طوطے، لکیر کے فقیر اور تنگ نظر تو پیدا ہو سکتے ہیں محقق، سائنس دان، دور اندیش اور بصیرت رکھنے والے دانشور جنم نہیں لے سکتے۔ تعلیم وتربیت سے محرومی کی وجہ سے ہی پاکستان سمیت آج دنیا کے ترقی پذیر ملکوں میں امن و امان اور چین سکون غارت ہو گیا ہے۔جن ملکوں میں نقلی دودھ اور شہد بنانے، پھلوں ا ور سبزیوں کو خطرناک کیمیکلز کے ذریعے دیر تک تازہ رکھنے، مردہ جانوروں کے گوشت کو قابل استعمال بنانے کے نت نئے طریقے ایجاد کرنا لوگوں کی ترجیحات میں شامل ہو وہاں انسانیت کی فلاح وبہبود کا سوچنے والے دانشور اور سائنسدان کیسے پیدا ہو سکتے ہیں؟کس قدر تلخ حقیقت ہے کہ جن کافروں کو مسلمانوں کی اکثریت نیست ونابود کرنے کے خواب دیکھتی ہے انہی کافروں کی ایجادات اور انہی کافروں کی بنائی گئی زندگی بچانے والی ادویات کے استعمال سے معمولی سا گریز بھی نہیں کرتی۔ مسلمان ملکوں کے حکمرانوں اور صاحب ثروت یعنی کرپٹ لوگوں کی بڑی تعداد اپنے علاج معالجے کے لئے بھی کافر ملکوں کے ڈاکٹروں پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ جو حکمران اور اربابِ اختیار اپنے ملکوں میں جعلی ادویات اور جعلی ڈگری والے دو نمبر ڈاکٹرز کا سدباب نہ کر سکیں تو ظاہر ہے انہیں علاج معالجے کے لئے کافر ملکوں کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ وطنِ عزیز میں جس سست رفتاری سے خواندگی کی شرح یعنی لٹریسی ریٹ میں اضافہ ہو رہا ہے اتنی ہی تیز رفتاری سے معیارِ تعلیم میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ آج سے چالیس برس پہلے بننے والے ڈاکٹر اور استاد کی قابلیت اور اہلیت کا موازنہ اگر آج کل بننے والے ڈاکٹرز اور اساتذہ سے کیا جائے تو فرق بالکل واضح ہو جائے گا جس کا بالکل واضح مطلب یہ ہے کہ باقی دنیا ترقی اور ہم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں بلکہ جا چکے ہیں اور المیہ یہ کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں بھی رخصت ہو چکا ہے۔ اگر ہم ایک لمحے کے لئے غور کریں کہ ہمارے کھیتوں میں ہل چلانے والے ٹریکٹر اور سڑکوں پر فراٹے بھرتی موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں سے لے کر ہمارے گھر میں جلنے والے بلب اور استعمال ہونے والے آلات (واشنگ مشین، فریج، ایئر کنڈیشنر وغیرہ) ہر وقت ہمارے استعمال میں رہنے والے موبائل فون سے لے کر اے ٹی ایم مشین اور کیش کارڈ، جان بچانے والی ادویات سے لے کر امراض کی تشخیص کرنیو الی جدید مشینیں، چند گھنٹوں میں ایک ملک سے دوسرے ملک تک لے جانے والے آرام دہ ہوائی جہاز سے لے کر جدید کمپیوٹرز یہ سب کس کی ایجاد ہیں اور کیا ہم مسلمان اِن ایجادات اور سہولتوں کے بغیر گزارہ کر سکتے یا زندہ رہ سکتے ہیں؟آنے والے دِنوں میں یہ دنیا سائنسی ایجادات کی کن انتہاؤں پر ہو گی اور چند دہائیوں بعد اس دنیا کی ترقی اور خوشحالی میں ہمارا کیا کردار ہو گا اس بارے میں فی الحال قیاس نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمان ممالک اور خاص طور پر پاکستان کی جو ترجیحات ہیں وہ بالکل درست نہیں بلکہ عصرِ حاضر کے تقاضوں کے منافی ہیں۔ یہ اعداد وشمار بہت حیرت انگیز ہیں کہ امریکہ میں اس وقت سات ملین یعنی 70لاکھ سے زیادہ سائنس دان، ڈاکٹرز، انجینئر اور محققین ہر شعبے میں نئی ایجادات اور جدید ٹیکنالوجی کے فروغ میں سرگرمِ عمل ہیں جبکہ برطانیہ میں ایسے سائنسدانوں اور محققین کی تعداد تقریباً 30لاکھ ہے۔یونائیٹڈ کنگڈم نے گذشتہ برس ریسرچ اور ڈویلپمنٹ پر تقریباً 16بلین پاؤنڈز خرچ کئے۔ موجودہ زمانے میں باشعور قومیں تحقیق میں لگی ہوئی ہیں جبکہ بے شعور قومیں اُن کی تقلید کر کے خوش ہیں۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے ”اصل حکمرانوں“ اور سیاستدانوں میں یہ رجحان بڑی تیزی سے فروغ پا رہا ہے کہ اپنے ملک اور قوم کے لوگوں کی حالت سنوارنے اور نظام کو ٹھیک کرنے کی بجائے کرپشن کے ذریعے مال بنا کر اپنے اور اپنی اولادوں کے لئے اُن ملکوں کی شہریت حاصل کی جائے جہاں پہلے سے موجود خوشحالی کی وجہ سے انہیں ہر طرح کی آسائش اور آرام میسر آ سکے۔ اگر یہ تحقیق کی جائے کہ بے انتہا کرپشن کے ذریعے پاکستان کو موجودہ حالات تک پہنچانے والے اربابِ اختیار کے کتنے بچے اور اولادیں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا یا برطانیہ میں زیر تعلیم ہیں یا انہوں نے جائیدادیں خرید کر وہاں کی شہریت حاصل کر رکھی ہے تو یہ اعدادوشمار قوم کے مزید ہوش اڑانے کے لئے کافی ہوں گے۔ اس کرپٹ مافیا کی حیثیت انگریز دور کے اُن وائسرائے جیسی ہے جو صرف حکمرانی کے لئے ملک میں موجود رہتے ہیں جب وہ اقتدار اور اختیار سے محروم ہو جاتے ہیں تو فوراً ہر طرح کے وسائل کو سمیٹ کر اُن جزیروں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں ہر طرح کے آرام چین اور سکون میسر آ سکے اور وہ مالِ غنیمت سے لطف اندوز ہو سکیں۔
٭٭٭