342

برطانوی امیگریشن, اسائلم۔ British Immigration, Asylum

بعض اوقات مذہبی، سیاسی یا معاشرتی وجوہ پر حالات اسقدر مشکل ہو جاتے ہیں کہ اپنے ہی ملک میں رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ جنگیں، سیاسی مخالفتیں، حکومتی جبر یا معاشرتی مخاصمت ایک فرد کو مجبور کر دیتی ہے کہ
وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی عافیت میں پناہ لے۔ اسی مجبوری کو مدنظر رکھتے ہوے اسائلم یا پناہ کا عالمی قانون متعارف کروایا گیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی اکثریت ان معاہدوں پر باقاعدگی سے عمل کرتی ہے جو اس سلسلے میں عالمی قوانین کے تحت ہوتے ہیں۔

جنیوا کنونشن 1951 اور یورپی کنونشن 1950 تمام ممبر ممالک کو اس کا پابند بناتے ہیں کہ وہ مجبوری کے عالم میں پناہ کے طالب کو، اگر اسکا کیس درست ہو، پناہ دیں تاکہ قیمتی انسانی جان کی حفاظت ہو سکے۔ مزید ازاں تمام ممبر ممالک نے اپنے ملکی امیگریشن قوانین میں بھی اسائلم کو شامل کیا ہے تاکہ ان عالمی معاہدوں پر عمل درآمد ہو۔ یہ ان ہی قوانین کی وجہ سے ہے کہ جنگ سے متاثر مسلم ممالک کے پناہ گزین مغربی ممالک میں عافیت سے رہ پاتے ہیں۔ اگرچہ پناہ گزینوں کی آمد نہ صرف ان ممالک پر معاشی بوجھ ڈالتی ہے بلکہ بہت سوں کو مخالف آوازیں اٹھانے کے مواقع بھی دیتی ہے، مگر پھر بھی یہ ممالک مجبور ہیں کہ اسائلم دیں۔ ایک تازہ مثال شامی مہاجرین کی ہے۔ انکی بہت بڑی تعداد، ان میں دہشت گردوں کی موجودگی کی افواہوں، انکے یورپی اقدار کو متاثر کرنے کے خدشات کے باوجود، جرمن چانسلر انجلا مرکل نے تمام یورپ کو مجبور کر دیا کہ ان مہاجرین کو پناہ دی جائے کیونک انسانی ہمدردی کا یہ معاملہ قانونی طور پر بھی یورپ کی ذمہ داری ہے۔ برطانیہ بھی بیان کردہ عالمی معاہدوں کا دستخط کنندہ ہے۔ اسکے علاوہ امیگریشن اینڈ نیشنیلٹی ایکٹ 1971 میں اسائلم دینے کو برطانیہ کے قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔

ہر سال ہزاروں کی تعداد میں لوگ برطانیہ میں پناہ طلب کرتے ہیں، جنکے کلیم کی سچائی کو پرکھ کر انھیں اسائلم دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ باقی امیگریشن کیٹیگریز کی طرح اس کیٹیگری میں بھی سختی آئی ہے۔ کچھ سال قبل کے برعکس، جب جھوٹی کہانیوں پر بھی اسائلم مل جاتا تھا، اب سچی کہانیوں کو بھی جھوٹ سمجھ کر پرکھا جاتا ہے۔ پناہ گزین کو پہلے کی طرح دوران کیس کام کرنے، ڈرائیونگ لائسنس بنانے یا بنک اکاونٹ کھولنے کی اجازت نہیں رہی۔ سالہا سال تک کیس لٹکانے کے بجائے اب مہینوں میں ہی فیصلہ کر دیا جاتا ہے۔ نومبر 2015 کے نئے قانون کے تحت اب ہر اسائلم کیس میں اپیل کا حق بھی نہیں دیا جاتا۔ مگر اسکے باوجود، دنیا کے ستائے بہت سے سیاستدان، شاعر، سکالر، اقلیتی افراد، مخصوص جنسی روئیے کے حامل اور جان کے خوف میں مبتلا بہت سے افراد اس قانون کے تحت برطانیہ میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔ دو اہم اصول: اسائلم کے لیے سب سے اہم اور اوّل دو اصول ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ یورپ میں سب سے پہلے جس ملک میں پہنچیں، وہاں اسائلم کریں۔ جیسے اگر آپ سیدھا برطانیہ آئیں تو برطانیہ میں اسائلم کریں۔ لیکن اگر آپ یونان اترے اور پورا یورپ پھلانگتے برطانیہ پہنچ کر اسائلم کیا تو آپ کا کیس کمزور ہو گا۔ دوسرا، اپنی آمد کے فورا بعد اسائلم کیجیے۔ جتنا زیادہ دیر کریں گے، اتنا ہی آپکا کیس کمزور تصور ہو گا۔

اسائلم یا پناہ کی مندرجہ ذیل تین قسمیں ہیں۔

1- ریفیوجی؛(Refugee) اگر آپ جنیوا کنونشن میں موجود شرائط کو پورا کرتے ہیں اور آپکا کلیم قبول کیا جاتا ہے تو آپکو ریفیوجی ویزہ ملتا ہے۔ یہ ویزہ پانچ سال کا ہے۔ اس پانچ سال کے عرصہ کے بعد آپ انڈیفینیٹ لیو (indefinite leave to remain) یا مستقل قیام کیلیے اپلائی کر سکتے ہیں۔

2- ہیومینیٹیرین پروٹیکشن؛(Humanitarian protection) اگر آپ جنیوا کنونشن کی شرائط کو پورا نہیں کرتے، مگر یہ ثابت کر لیتے ہیں کہ آپ کا اپنے ملک بھیجے جانا یورپی ہیومن رائٹس کنونشن کی خلاف ورزی ہو گا تو آپکو پروٹیکشن ویزہ دیا جاتا ہے۔ یہ ویزہ بھی پانچ سال کا ہے۔ اس پانچ سال کے بعد بھی آپ مستقل قیام کے اہل ہو جاتے ہیں۔

3- ڈسکریشنری لیو; (Discretionary leave) اگر آپ مندرجہ بالا دونو کیٹیگریز میں پورا نہیں اترتے مگر آپکا یو کے میں رہنا یا اپنے ملک ڈیپورٹ نہ ہونا ناگزیر ہے، تو آپکو ڈسکریشنری لیو دی جاتی ہے۔ یہ ویزہ تین سال کا ہے۔ تین سال بعد بھی اگر آپ ثابت کریں کہ حالات نہیں بدلے تو مزید تین سال کا ویزہ دیا جاتا ہے۔ کل چھ سال بعد آپ مستقل قیام کے اہل ہو جاتے ہیں۔ اسائلم کی شرائط؛ اسائلم کا دعوی کرنے کیلیے آپکو ثابت کرنا ہے کہ؛

1- آپکو ایذا رسائی(persecution ) کا خطرہ ہے۔

2- یہ خطرہ حقیقی اور ثابت شدہ ہے۔

3- یہ خطرہ مذہب، سیاسی نظریات، نسل یا مخصوص سماجی گروپ سے ہونے کی وجہ سے ہے۔

4- آپکے اپنے ملک میں آپ اگر جگہ تبدیل بھی کر لیں تو خطرے میں ہیں۔

5- آپ کے ملک کی حکومت آپ کی حفاظت نہیں کر سکتی۔
6- یہ خطرہ مستقل ہے۔

اسائلم کون کر سکتا ہے: مندرجہ بالا لوگ اسائلم کر سکتے ہیں۔

1- سیاسی/مذہبی اختلافی نظریات کے حامل؛ اگر آپکے سیاسی نظریات اپنی حکومت یا اسکے طاقتور حصہ کے مخالف ہیں اور اس اختلاف کے باعث حکومتی مشینری آپکو نقصان پہنچانے پر اتر آئی ہے تو آپ پناہ طلب کر سکتے ہیں۔ حضرت زیاع کے دور میں ایک کثیر تعداد نے برطانیہ میں پناہ حاصل کی اور جمہوریت سے محبت کی قیمت ادا کی۔ ایسی پناہ کے کیسز زیادہ تر مارشل لا کے دور میں ہی کامیاب رہتے ہیں۔( ویسے ابو علیحہ کا اسائلم بھی اسی وجہ سے ہو ، جلد ہی شاید☺️ ) اسکے علاوہ اگر آپکے مذہبی نظریات نے آپکو خطرے میں ڈال دیا ہے(اس وجہ سے تو میرے اکثر فیس بکی دوست کوالیفائی کر جائیں گے) ، تبدیلی مذہب یا ملحدہونے کی وجہ سے خوف ہے اور حکومت أپ کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو رہی ہے، تو بھی آپ پناہ طلب کر سکتے ہیں۔

2- مخصوص سماجی گروہ: اگر کسی مخصوص سماجی گروہ سے آپکی وابستگی آپ کے لیے خطرے کا باعث ہے، تو بھی آپ اسائلم کلیم کر سکتے ہیں۔ جیسے اگر آپ احمدی، دیگر اقلیت، بعض کیسز میں شیعہ، ہزارہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں تو بھی آپ اسائلم کلیم کر سکتے ہیں۔

3- خواتین؛ پاکستانی خواتین کو اسائلم کی تعریف میں مخصوص گروہ کی تعریف میں رکھا گیا ہے۔ کیونکہ پاکستانی خواتین کو معاشرے کا کمزور اور ستم رسیدہ گروہ تسلیم کیا گیا ہے۔ سو اگر آپ پسند کی شادی، شادی کے بغیر ماں، شوہر کے ستم، ریپ اور جبری شادی جیسے مسائل کا شکار ہیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ ریاستی مشینری آپکی مدد نہیں کر سکی یا نہیں کرنا چاہتی، تو آپ پناہ کا دعوی کر سکتی ہیں۔

4- ہم جنس پرستی؛ پاکستان میں ہم جنس پرستی قانونا ایک جرم ہے جو کہ پاکستان پینل کوڈ کے تحت قابل سزا ہے۔ مزید ازاں ایسے تعلق کو ہماری سماجی معاشرتی اور مذہبی اقدار بھی قبول نہیں کرتیں۔ سو اگر آپ یہ ثابت کر پائیں کہ آپ ہم جنس پرست ہیں تو آپ اسائلم کلیم کر سکتے ہیں۔ آجکل پاکستانی خواتین و حضرات کے جتنے اسائلم میں اس کیٹیگری میں کرتا ہوں، مجھے حیرانی ہے کہ ہم ابھی بھی اسکے خلاف کیوں ہیں۔ شاید ہم ماننا نہیں چاہتے کہ یہ افراد ایک کثیر تعداد میں ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ ویسے بھی یہ اسائلم میں نسبتا آسان طریقہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دوں کہ یہ دعوی کرنے پر نا تو آپکا کسی قسم کا میڈیکل کیا جاتا ہے اور نہ ہی آپ کے پاسپورٹ پر ہم جنس پرست کی مہر لگتی ہے۔

پروسیجر: جب آپ اسائلم فائل کرتے ہیں تو آپکو فوری طور پر ایک ARC کارڈ ایشو کر دیا جاتا ہے۔ آپ چاہیں تو رہائش اور خرچے کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ مفت قانونی مدد کے بھی مستحق کو سکتے ہیں۔ اسکے بعد آپکا پہلا انٹرویو ہوتا ہے جسے سکریننگ کہتے ہیں۔ اگر آپکا دعوی بلکل ہی بے بنیاد ہو تو اکثر آپکو ڈیٹین/گرفتار کر کے ایک امیگریشن سنٹر میں رکھا جاتا ہے اور جلد از جلد آپکے کلیم کا فیصلہ کر کے آپکو ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ سکریننگ کے کچھ عرصہ بعد ایک مفصل انٹرویو ہوتا ہے، جسے اسائلم انٹرویو کہتے ہیں۔ اس انٹرویو میں مختلف سوالات اور آپکے پاس موجود ثبوتوں کی بنیاد پر آپکے دعوی کی حقیقت کو پرکھا جاتا ہے۔ اگر امیگریشن آفیسر مطمئن ہو کہ آپ ایک جینوئن اسائلم سیکر ہیں تو آپکو اوپر بیان کردہ کسی کیٹیگری میں ویزہ دے دیا جاتا ہے۔ ویزہ ملنے کے بعد أپ کو کام کرنے وغیرہ کی اجازت ہوتی ہے اور آپ ایک عام برطانوی شہری کی ہی طرح زندگی گزارتے ہیں۔

اہم نکتہ: یاد رکھیئے کہ نئے انتظامات کے تحت اب برطانوی حکومت ہر فراہم کردہ ثبوت کی اپنے طور پر ویریفیکیشن کرتی ہے۔ سو جعلی کاغذات آپکے کلیم کو نقصان دیں گے۔ مجھے امید ہے کہ امیگریشن کی اس معروف قسم پر یہ قسط آپ کیلیے کافی معلومات اور فوائد کی حامل ہو گی۔ یہ عمومی باتیں ہیں۔ اسائلم میں ہر کیس اپنے اپنے میرٹس رکھتا ہے اور اسکی تیاری ان ہی عوامل کے مطابق ہوتی ہے۔

( انعام رانا ,ماہر قانون, جولیا اور رانا سولیسیٹرز, لندن, چیف ایڈیٹر مکالمہ ڈاٹ کام )

اپنا تبصرہ بھیجیں