458

برطانوی تعلیمی نظام بمقابلہ پاکستانی تعلیمی نظام

برطانوی دارالحکومت لندن سے 56میل کی مسافت پر ایک شہر آکسفورڈ(آکسفرڈ) کے نام سے آباد ہے۔ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ آبادی پر مشتمل اس شہر کی تاریخ بہت قدیم اور کئی صدیوں پر محیط ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اس تاریخی شہر کی شناخت اور سب سے اہم حوالہ ہے۔ اس درسگاہ کا قیام 1096ء میں عمل میں آیا اور یہ دنیا کی دوسری ایسی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جو اپنے قیام کے بعد سے آج تک اپنے تدریسی تسلسل اور معیارکو قائم رکھے ہوئے ہے۔ تعلیمی معیار کے اعتبار سے حالیہ عالمی درجہ بندی میں آکسفورڈ یونیورسٹی دنیا کی بہترین یونیورسٹیز میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ برطانیہ کی ہی کیمبرج یونیورسٹی تیسرے اور امپیریل کالج دسویں نمبر پر ہے۔ امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی اس فہرست میں چوتھے اور ہاورڈ یونیورسٹی ساتویں نمبر پر ہے۔ آکسفورڈ برطانیہ کا ایک منفرد اور شاندار شہر ہے جس کی آب وہوا میں علم کی خوشبو رچی بسی ہوئی ہے یہاں طالب علموں اور پروفیسرز کی بڑی تعداد اپنی ظاہری وضع قطع سے بے نیاز پیدل چلتی یا سائیکلوں پر سوار ایک کیمپس سے دوسرے کیمپس کی طرف رواں دواں نظر آتی ہے۔ اس شہر میں آ کر اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے شعبہ ابلاغیات (ماس کمیونیکیشن) سے فارغ التحصیل مجھ ایسے نالائق طالب علم کو بھی خیال آتا ہے بلکہ ایک حسرت بیدار ہوتی ہے کہ کاش میں بھی یہاںکی عظیم درسگاہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہوتا۔ اس شاندار اور عظیم تعلیمی ادارے نے گذشتہ کئی صدیوں کے دوران ایسے بے مثال سائنسدان، فلسفی، قانون دان، ماہرین اقتصادیات، سیاستدان اور ادیب پیدا کئے جن کی عظمت کا اعتراف ہر دور میں کیا جاتا رہا ہے۔ اس درسگاہ سے فارغ التحصیل ہونے والے درجنوں طالب علم اپنے ملکوں میں جا کر وزیر اعظم اور صدر بنے، نوبل انعام یافتہ ہوئے،قانون دان بنے ایجادات کیں اور تحقیق کے شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے … ویسے تو برصغیر پاک و ہند سے بھی بہت سے لوگ آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رہے اور اب بھی ہر سال کئی طالب علم انڈیا اور پاکستان سے یہاں پڑھنے کے لئے داخلہ لیتے ہیں۔ پاکستانی طلبا نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں اپنی ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے اور یہ پاکستان سوسائٹی مختلف طرح کی تقریبات کا اہتمام بھی کرتی رہتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی میں جو نامور پاکستانی شخصیات زیر تعلیم رہی ہیں ان میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خاں، ذوالفقار علی بھٹو، سابق صدر فاروق لغاری، سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، عمران خان، بلاول زرداری اور ملالہ یوسف زئی کے نام شامل ہیں۔ بھارت کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور اندراگاندھی بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کے طالب علم رہے۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں کل 130یونیورسٹیز ہیں جو اپنے تعلیمی معیار اور وقار کی وجہ سے پوری دنیا میں معتبر سمجھی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر سے طالبعلموں کی ایک بڑی تعداد حصول علم کے لئے ایک بڑی رقم خرچ کر کے برطانیہ آتی ہے۔ لیبر پارٹی کے گذشتہ دور حکومت میں برطانیہ نے اوورسیز طلباء کے لئے بہت سی آسانیاں پیدا کی تھیں جس کے بعد بہت سے موقع پرستوں نے جعلی کالجز قائم کر کے پاکستان اور انڈیا سے برطانیہ آنے کے ہزاروں خواہشمندوں کو سٹوڈنٹ ویزے پر یہاں بلا کر بے یارومددگار چھوڑ دیا ۔جس کے بعد اتھارٹیز کو ان کالجز کے خلاف کاروائیاں کر کے انہیں بندکرنا پڑااور سینکڑوں طلباء ملک بدری کی زد میں آ گئے۔کنزرویٹیو پارٹی نے حکومت میں آ کر اپنی امیگریشن پالیسی کو یکسر تبدیل کر دیا اور خاص طور پر سٹوڈنٹ ویزے کے حصول کو بہت مشکل بنا دیا اور برطانیہ میں سٹوڈنٹ ویزے پر کام کرنے کی اجازت پر بھی پابندی لگا دی جس کا مقصد یہ تھا کہ صرف وہی لوگ سٹوڈنٹ ویزے پر برطانیہ آئیں جو واقعی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں جب جعلی ڈگریوں پر استاد، ڈاکٹر یا پائلٹ بننے کی خبروں کی تشہیر ہوتی ہے، جعلی ڈرائیونگ لائسنس یا بغیر ٹیسٹ پاس کئے لائسنس جاری کرنے کی خبریں گردش کرتی ہیں تو اسلام آباد میں موجود ترقی یافتہ ملکوں کے سفارت خانے ایسی خبروں کو مانیٹر کرتے اور ان کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی 172یونیورسٹیز میں 95فیصد کی ڈگریوں کی بیرونی دنیا میں کوئی وقعت نہیں ہے ۔جس ملک میں دوائیں جعلی بنتی ہوں، موبل آئل نقلی بنتا ہو، دودھ اور خوراک میں ملاوٹ ہوتی ہو وہاں کے تعلیمی اداروں کی ڈگریوں اور سندوں کا اعتبار کون کرے گا۔ چند سال پہلے میرے ایک قریبی دوست کا کزن اے سی سی اے یعنی چارٹرڈ اکائونٹینسی کرنے کے لئے لندن آیا اس کا سٹوڈنٹ ویز ہ ایک محدود مدت کے لئے تھا وہ اکثر میرے دفتر آتا جاتا رہتا تھا ۔ ایک دن میں نے اس سے استفسار کیا کہ تمہاری پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟اس نے بڑی بے زاری سے جواب دیا کہ مجھے لیکچر کی سمجھ ہی نہیں آتی اس لئے میں کم ہی کلاسز میں جاتا ہوں۔ کچھ عرصے بعد میرے اس دوست نے اپنے کزن کی تعلیمی قابلیت کا بھانڈا پھوڑا تو معلوم ہوا کہ موصوف ایف اے میں بڑی مشکل سے پاس ہوئے تھے جس کے بعد اس کے والد نے کئی سال تک اس پر مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے دبائو ڈالا مگر ناکامی ہوئی اور آخرکار بی کام اور ایم کام کی جعلی ڈگری بنوا کر اس کا سٹوڈنٹ ویز لگوایا گیا اور موصوف اے سی سی اے کرنے برطانیہ آ گئے اور ظاہر ہے ایف اے پاس کو اے سی سی اے کا لیکچر کیسے سمجھ آ سکتا ہے۔ پاکستان سے جو طالب علم تعلیم حاصل کرنے کے لئے برطانیہ آتے ہیں ان میں سے اکثریت اپنے مقصد کے حصول میں ناکام رہتی ہے۔ ایسے اوورسیز پاکستانی سٹوڈنٹس کی تعداد بہت کم ہوتی ہے جو کامیابی سے اپنی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں اور جو یہ مقصد حاصل کرتے ہیں انہیں برطانیہ میں ہی ملازمت مل جاتی ہے اور وہ پلٹ کر پاکستان جانے اور اپنی تعلیمی قابلیت سے پاکستان کو فائدہ پہنچانے کی زحمت نہیں کرتے۔ جو پاکستانی سٹوڈنٹ برطانیہ میں اپنی تعلیم کے حصول کے مقصد سے بھٹک جاتے ہیں وہ یا تو ویزا ختم ہونے پر ملک بدر کر دیئے جاتے ہیں یا پھر روپوش ہو کر غیر قانونی امیگرنٹ کے طور پر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں یا کسی یورپی اور برطانوی شہری سے شادی کی جستجو میں لگے رہتے ہیں مگر اس میں بھی انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوتی۔ ایک زمانہ تھا کہ پاکستان میں چند گنی چنی یونیورسٹیز اور میڈیکل کالجز تھے جن کے تعلیمی معیار اور ڈگریز کی برطانیہ میں بڑی توقیر تھی مگر جب سے پاکستان کے ہر شہر میں غیر معیاری میڈیکل کالجز، یونیورسٹیز ، لاء کالجز وغیرہ کا کاروبار شروع ہو گیا ہے تب سے دنیا بھر اور خاص طور پر برطانیہ میں ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں کی رہی سہی ساکھ بھی ملیامیٹ ہو گئی ہے۔ جب کسی ملک اور قوم پر زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اس کے تعلیمی ادارے اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔جس معاشرے کے لوگوں کی اکثریت علم کے حصول کی بجائے صرف اور صرف دولت کے حصول کو اپنی پہلی ترجیح بنالے تو وہاں تعلیمی اداروں کا معیار کیسے بلند ہو سکتا ہے اور ڈگریز کا وقار کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی ساکھ بنانے میں مدتیں لگتی ہیں اور درسگاہیں کئی نسلوں کی تربیت کرتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں