18اپریل بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب بلوچستان کے علاقے اورماڑہ میں کوسٹل ہائی وے پر 14پاکستانی اہلکار، جن میں نیوی کے 10، فضائیہ کے 3 اور کوسٹ گارڈ کے ایک اہلکار کوبسوں سے اتار کر باقاعدہ شناختی کارڈ چیک کر کے پیچھے ہاتھ باندھ کر شہید کر دیا گیاتھا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس واقعہ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی کہ دہشت گرد ایران کی جانب سے آئے تھے ۔ جس سے حکومت ایران کو آگاہ کر دیا گیا ہے اور انہوں نے بظاہر مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے ۔
پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کو جس ” براس BRAS “ نامی دہشت گرد تنظیم نے شہید کیا ہے ، یہ دراصل تین علیحدگی پسند مسلح بلوچ تنظیموں ( بلوچ لبریشن آرمی ، بلوچستان لبریشن فرنٹ اور بلوچ ریپبلکن گارڈ ) کا اتحاد ہے ۔ جس کو بدنام زمانہ بھارتی خفیہ ایجنسی RAW مکمل سپورٹ کر رہی ہے ۔ جبکہ اس کے ٹھکانے ایرانی سرحدوں کے اندر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں رہنا چاہیے کہ مملکت اسلامیہ پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی کا سب سے بڑا بیرون ملک اڈہ چاہ بہار بندرگاہ ہے ۔ جہاں پر تمام تر الفاظی جنگ کے باوجود امریکہ ، اسرائیل ، بھارت اور ایرانی رجیم ایک پیج پر ہیں یعنی سی پیک کی مخالفت میں ۔ جس میں ان طاقتوں کو آستین کے سانپوں کی مدد بھی حاصل ہے ۔ غداران پاکستان کے لیئے سی پیک ایک ایسا ڈراؤنا خواب بن چکا ہے جس نے ان کی نیندیں حرام کر دی ہیں، اور جسے سبوتاژ کرنے کے لیئے وہ آخری حد تک بھی جا سکتے ہیں ۔
اس واقعے کے بعد ایک عام پاکستانی کے ذہن میں کچھ سوالات سر اٹھاتے ہیں کہ کیا ایرانی حکومت کی مرضی کے بغیر وہاں پر پاکستان مخالف دہشت گردی کا اتنا بڑا نیٹ ورک قائم ہو سکتا ہے ؟
کیا” براس “کے دہشت گرد ایرانی حکومت کی آشیر آباد کے بغیر اتنی گھناؤنی دہشت گردی کی واردات کر سکتے ہیں ؟جبکہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کے پاس پہلے ہی سے بلوچستان میں ایران و بھارت کی مداخلت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں ۔ جس کی سب سے بڑی دلیل ماضی میں بھارتی فوج کے حاضر سروس کرنل کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہے جو چاہ بہار میں بیٹھ کر کئی سال تک پاکستان میں دہشت گردی کا گھناؤنا کھیل کھیلتا رہا ہے۔