اُسے پاکستان سے لندن آئے ابھی چند ہی مہینے ہوئے تھے۔ وہ پاکستان میں شادی کے بعد برطانیہ آئی تھی۔ اُسے یہ ملک بہت اچھا لگا، صاف ستھرا، ہر طرح کی سہولت سے آراستہ، قانون اور ضابطے کی پاسداری، ہر طرح کی شخصی آزادی۔ ابتداء میں یہ سب کچھ اُسے خواب کی دنیا جیسا محسوس ہوا۔ وہ بہت خوش تھی لیکن اس کی یہ خوشی چند ہی ہفتوں میں غارت ہو گئی جب اُس کے شوہر نے بات بات پر اس کی سرزنش کرنا شروع کر دی اور اس پر ہاتھ اُٹھانے لگا۔ ابتداء میں تو وہ یہ سب کچھ برداشت کرتی رہی مگر جب مار پیٹ اور تشدد بڑھنے لگا تو ایک دن اس کی ایک ہمسائی نے چیخ و پکار سُن کر پولیس کو فون کر دیا۔ پولیس جب اس کے گھر میں داخل ہوئی تو وہ اپنے بیڈروم کے قالین پر نیم بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ سوجا ہوا تھا اور گردن پر نیل پڑے ہوئے تھے۔ یوں اچانک پولیس کے آ جانے پر اس کا شوہر جو کچھ دیر پہلے غصے سے پاگل ہو گیا تھا ایک دم حواس باختہ ہو کر پولیس کو بیڈ روم میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرنے لگا لیکن پولیس نے اس تک رسائی حاصل کر لی ا ور فوری طور پر ایمبولینس کو بلا کر اسے ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں چند روز بعد اس کی طبیعت بحال ہوئی تو اس کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ پاکستان سے رخصتی کے وقت اس کی ماں نے کہا تھا کہ تم اب اگلے گھر جا رہی ہو وہاں سے تمہاری کوئی شکایت نہیں آنی چاہئے۔تمہیں ہر صورت اپنا گھر بسائے رکھنا ہو گا۔ پولیس کو بیان دیتے وقت اُسے اپنی ماں کی نصیحت یاد آئی اور اس کا شوہر پولیس کارروائی سے بچ گیا۔ اس واقعے کے بعد اس کا شوہر اُسے اپنے والدین کے گھر چھوڑ آیا جوبرطانیہ کے کسی دوسرے شہر میں رہتے تھے۔ ساس سسر نے اُسے بہو سمجھنے کی بجائے نوکرانی سمجھ کر دِن رات اپنی خدمت پر مامور رکھا۔ اس کا شوہر کئی کئی مہینے بعد اُسے ملنے آتا اور بات بات پر جھڑکتا اور ماں باپ کے اُکسانے پر مار پیٹ سے بھی گریز نہ کرتا۔ وہ اس ظلم و ستم کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموش رہتی۔ یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی کا خلاصہ ہے جو شادی کے بعد برطانیہ آئی اور اُسے اپنے خوابوں کی تعبیر ملنے کی بجائے دیار غیر میں طرح طرح کے عذاب سہنے پڑے۔ یہ صرف ایک دکھی لڑکی کی داستانِ حیات ہے۔ برطانیہ اور یورپ میں سینکڑوں لڑکیاں ایسی ہیں جو انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال اور دیگر ملکوں سے شادی کے بعد دیار غیر اور اجنبی ملکوں میں آتی ہیں اور اپنے شوہروں کے علاؤہ سسرال کے تشدد کا بھی نشانہ بنتی ہیں لیکن امیگریشن کی مجبوریوں کی وجہ سے ہر ناانصافی اور ظلم کو سہتی رہتی ہیں۔ پڑھی لکھی لڑکیاں تو زیادہ عرصہ تک گھریلو تشدد برداشت نہیں کرتیں کیونکہ وہ جلد ہی اپنے حقوق اور مغربی معاشروں میں میسر شخصی آزادی سے آگاہ ہو جاتی ہیں اور پھر اپنے شوہروں اور سسرال والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیتی ہیں۔ کم پڑھی لکھی اور غریب گھرانوں کی لڑکیاں شادی کے بعد برطانیہ آ کر عمر بھر ظلم و ستم سہتی ہیں تاوقتیکہ اُن کے بچے بڑے ہو کر اپنی ماؤں کے حقوق کے محافظ بن جائیں اور انہیں گھریلو تشدد سے نجات دلائیں۔ گھریلو تشدد (DOMESTIC VIOLENCE) برطانیہ میں آباد ایشیائی کمیونٹی کا ایک سنگین سماجی مسئلہ ہے۔ ماؤں کے ساتھ ساتھ اکثر اوقات بچے بھی اس تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور اگر پولیس یا کسی سماجی فلاحی ادارے کے علم میں یہ بات آ جائے کہ بچے گھریلو تشدد کی زد میں آ رہے ہیں تو ایسے بچوں کو فوری طور پر سوشل سروسز کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور پھر اُن کے والدین کو بچوں کے حصول کے لئے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔ برطانیہ میں ہونے والے 16سے 25فیصد جرائم ایسے ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح گھریلو تشدد سے ہوتا ہے۔ صرف عورتیں اور بچے ہی گھریلو تشدد کا نشانہ نہیں بنتے بلکہ 13فیصد مرد اور خاص طور پر ایشیائی مرد بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔ اُن میں سے اکثریت ایسے مردوں کی ہے جو منگیتر کے طور پر برطانیہ آتے ہیں یا نشے (شراب نوشی) کی عادت کے باعث اپنی شریک حیات یا اس کے اہل خانہ کے ہاتھوں پٹتے ہیں۔ برطانیہ میں آباد سکھ کمیونٹی میں گھریلو تشدد کے واقعات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ سکھ مردوں کی بڑی تعداد شراب نوشی کے بعد اپنی بیویوں پر اپنی بہادری کی دھاک بٹھانے کی کوشش کرتی ہے اور گھریلو تشدد کے مقدمات میں جا پھنستی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ برطانیہ میں خواتین اور خاص طور پر ایشیائی عورتیں چپ چاپ مردوں کے ظلم و ستم سہتی رہتی تھیں لیکن اب پورے یونائیٹڈ کنگڈم میں گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والوں کے لئے فلاحی ادارے اور ہیلپ لائنز موجود ہیں اور اس سلسلے میں ہر طرح کی آگاہی سوشل میڈیا کے ذریعے بھی متاثرین کو فراہم کی جاتی ہے۔ اس لئے اب متاثرہ خواتین ڈومیسٹک وائیلنس کے واقعات کو آسانی سے رپورٹ کر کے فوری مدد حاصل کر سکتی ہیں۔ ایشیائی لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ انگریزوں یا سفید فام لوگوں کی شادیاں زیادہ کامیاب ثابت نہیں ہوتیں جبکہ ہماری کمیونٹی میں ازدواجی رشتے زیادہ دیرپا ہوتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ گوری عورتیں گھریلو تشدد کو برداشت کرنے کی بجائے اپنے شریک حیات سے علیحدہ ہونے کو ترجیح دیتی ہیں اور ہماری کمیونٹی میں عورتوں کی بڑی تعداد زندگی بھر شوہروں کے جبر وتشدد کا نشانہ بنتی رہتی ہے لیکن اپنے ازدواجی رشتے کو آخری دم تک قائم رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔ ہماری عورتوں اور خاص طور پر کم پڑھی یا ان پڑھ خواتین کے ذہن میں شادی کے وقت یہ بات بٹھا دی جاتی ہے کہ جس گھر میں تمہاری ڈولی جا رہی ہے وہاں سے اب تمہارا جنازہ ہی اُٹھے گا۔ یو کے میں مجموعی طور پر شادیوں کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں شادی شدہ جوڑوں میں ڈومیسٹک وائیلنس کو برداشت کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری کمیونٹی میں شادی کی ناکامی کو ایک سماجی عیب کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور جو لڑکیاں ایشیائی ممالک سے بیاہ کر برطانیہ آتی ہیں یا لائی جاتی ہیں اُن کی امیگریشن کی ضرورتیں بھی ایک خاص مدت تک انہیں حالات سے سمجھوتا کرنے پر مجبور رکھتی ہیں۔ ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ امیگریشن کے حقوق حاصل ہونے پر ظلم و ستم برداشت کرنے والی مجبور اور بے زبان بیویوں نے نہ صرف اپنے حقوق کا تحفظ کیا اور اپنے اوپر ہونے والے ہر تشدد اور اپنے ساتھ ہونے والی ہر ناانصافی کا گِن گِن کر بدلہ لیا۔ ویسے بھی برطانیہ میں سنگل مدرز(اکیلی ماؤں) کو ہر طرح کا قانونی تحفظ اور مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے اور جو عورتیں گھریلو تشدد کے نتیجے میں اپنے شوہروں سے علیحدہ ہو کر سنگل مدرز کے طور پر زندگی گزارنے پر مجبور ہوئی ہوں اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا ہے اور انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے سلسلے میں ترجیح دی جاتی ہے۔ برطانیہ میں گھریلو تشدد کو اس لئے بھی سنگین اور ناقابل برداشت جرم قرار دیا گیا ہے کہ جو عورت اس ظلم کا شکار ہوتی ہے اس کی شخصیت کئی طرح کے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اگر اس گھر میں بچے بھی موجود ہوں تو اُن کی آئندہ زندگی پر بھی اس ڈومیسٹک وائیلنس کے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ یونائیٹڈ کنگڈم میں بہت سے ایسے ادارے قائم ہیں جو ایشیائی کمیونٹی میں (FORCED MARRIAGE) یعنی زبردستی کی شادی کے خلاف سرگرمی سے کام کر رہے ہیں کیونکہ جبری شادیوں کی وجہ سے گھریلو تشدد سمیت اور بہت سے سنگین سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جن ملکوں میں عورتیں اور بچے سب سے زیادہ جسمانی اور جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں اُن میں ترکی، مصر اور انڈیا سرفہرست ہیں۔ برطانیہ میں جسمانی تشدد کرنے والے کو عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔ ڈومیسٹک وائیلنس کو روکنے کے لئے برطانیہ میں نہ صرف سرکاری ہیلپ لائن کی سہولت دستیاب ہے بلکہ اس ملک میں جسمانی اور جنسی تشدد کے مجرموں کو سخت سزائیں دینے کے قوانین موجود ہیں۔ عورتوں اور بچوں میں ڈومیسٹک وائیلنس کے خلاف آگاہی کو فروغ دینے کے لئے سرکاری اور رضاکار تنظیمیں اور ادارے سرگرم عمل ہیں۔ جو عورت ایک بار اپنے شوہر یا پارٹنر کے جنسی یا جسمانی تشدد کو برداشت کر لیتی ہے اُسے بار بار یہ ظلم سہنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ اسی لئے عورتوں کو برطانیہ میں یہ ترغیب دی جاتی ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے جسمانی یا جنسی تشدد کے پہلے سانحے کو ہی رپورٹ کریں اور اس سلسلے میں کسی قسم کی مصلحت اور مجبوری کے تحت خاموشی اختیار نہ کریں۔ مظلوم کی خاموشی اور مصلحت پسندی سے ظالم کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ برطانیہ میں سخت قوانین اور سنگین سزاؤں کے باوجود ڈومیسٹک وائیلنس میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف لوگوں کی قوت برداشت میں کمی آ رہی ہے بلکہ جدید سہولتوں کی دستیابی کے سبب گھریلو تشدد کے واقعات کو رپورٹ کرنے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
٭٭٭٭٭٭