سعودی علماءبورڈ کے رکن ڈاکٹر سلیمان ابا الخیل نے واضح کیا ہے کہ ایسے ممالک جہاں دن زیادہ لمبے ہوں وہاں کے باشندے رمضان میں روزے نہ رکھنے کے مجاز ہیں اور انہیں یہ روضے بطور قضابعد میں رکھنے ہونگے۔
امام محمد بن سعود اسلامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے سعودی چینل ون کے معروف پروگرام ”فتاوی“ میں سویڈن کے ایک شہری نے استفسار کیا تھا کہ اسکینڈی نیویا ممالک میں دن کبھی کبھار 20گھنٹے سے زیادہ کا ہوجاتا ہے ۔ کئی لوگوں کو روزہ رکھنے میں مشقت ہوتی ہے۔کیا وہ رمضان کے روزے نہ رکھ کر قضاکرسکتے ہیں۔
ابا الخیل نے جواب دیا کہ ہر وہ شخص جسے روزے رکھنے میں مشقت ہو اورروزے سے اسکی صحت متاثر ہورہی ہو اسے رمضان میں روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زحمت سے بچانے کیلئے ہی مسافروں کو رمضان کے روزے نہ رکھنے اور بعد میں انکی قضا کرنے کی اجازت دی ہے۔
اگر دن لمبا ہو اور اس سے مذکورہ ممالک کے مسلمان مشقت میں پڑ رہے ہوں خاص طور پر بوڑھے ، عورتیں یا بچے اور وہ روزے نہ رکھ سکیں تو وہ رمضان میں روزے نہ رکھیں اور بعد میں قضا کرلیں۔ اسلام کشادگی ، رحمت اور آسانی کا مذہب ہے۔