جیسا کہ پہلے مضمون میں بتایا جا چُکا ہے کہ پارا چنار میں شیعہ انقلاب ایران سے متاثر تھا اور ایران کے طرزِ انقلاب میں اپنی بقاء ڈھونڈ رہا تھا۔اسی طرح لوئیر کرم کے سُنی سعودی عرب کے مکمل زیر اثر تھے اور شیعوں سمیت ایران کو اپنا جانی دشمن تصور کرتے تھے۔ صدہ لوئیر کرم کا ایک بڑا کاروباری مرکز ہے۔ جہاں سُنیوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کاروبار اور جائیداد کے حوالے سے سُنی مسلمان یہاں کے بلا شرکت غیرے مالک ہیں اور شیعوں کو ایسے ہی مشکوک نگاہ سے دیکھنے کے عادی ہیں جیسے شیعہ پارا چنار میں سُنیوں کو دیکھتے ہیں۔افغان جہاد کے دوران اسی علاقہ میں افغان کمانڈر عبدالرسول سیاف کے جنگی کیمپ کافی عرصہ تک فعال تھے اور جہادی سوچ یہاں کے سُنیوں کی گُھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ یہاں کے سُنی لشکر جھنگوی کے حق نواز جھنگوی اور اعظم طارق جس نے شیعہ قتل عام کی باقاعدہ شروعات 1995 میں کی، سے بہت زیادہ متاثر ہیں۔
قبائلی مزاج یہاں کے دونوں فرقوں میں یکساں ہے۔انتقام اور شدید انتقام جس نے اب مذہب کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔اسی جذبے کے پیش نظر کسی ایک فریق کو اپنی بقاء کے لئے جس انتہاء پر بھی جانا پڑے،بنا کسی جھجھک کے قدم اٹھا لیتے ہیں۔صدہ کے سُنی سعودی عرب کی فنڈنگ سے ایسی تنظیموں کے قریب تھے جہاں سے وہ باآسانی پارا چنار کا ناطقہ بند کرسکتے تھے۔2007 میں تحریک طالبان حکیم اللہ محسود جس نے وزیرستان سے نکل کر خیبر ایجنسی اور کرم ایجنسی کو اپنے زیرِ تسلط لینے کا پلان بنایا ہوا تھا۔ان کو آسانی کے ساتھ صدہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی۔ سُنی قبائل فوج پر اس لئے بھی بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھے۔کیونکہ 9/11 کے بعد پاک فوج امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف بڑی حلیف تھی اور پاکستان کی حدود میں سابقہ جہادیوں کو گرفتار کرنے اور ان کی املاک کو نقصان پہنچانے میں پیش پیش تھی اور انہی کرداروں کے اُوپر حملہ یہاں کے سُنی مسلمان اپنے اوپر حملہ تصور کررہے تھے۔لہٰذا پاک فوج کو یہاں کے لوگ پرو شیعہ اور اینٹی سُنی سمجھنے لگ گئے اور نتیجتاً تحریک طالبان کی یہاں موجودگی کا سب سے بڑا جواز بھی یہی محرکات بن گئے۔ جوآگے ایک بڑی تباہی کا شاخسانہ ثابت ہوئے۔
صدہ میں یہ نظریہ زور پکڑتا گیا، کہ تحریک طالبان کا کمانڈر حضرت آمین حقانی شیعوں سے بدلہ لے گا اور یہ نظریہ پارا چنار کے شیعوں کے بیچ ان کی نسل کشی کی مترادف گردانا گیا۔ میدان تیار تھا، پارا چنار میں شیعہ لشکر کی تشکیل ہوچکی تھی اور طالبان کی کوشش تھی کہ وہ کسی طریقہ سے پاراچنار میں اپنا داخلہ ممکن بنائیں مگر وہاں سُنیوں کی سخت نگرانی ان کا یہ خواب پورا کرنے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھ،پھر 6 اپریل 2007 ء سترہ ربیع الاوّل جب پارا چنار میں شیعوں کی محفل میلاد کی تقریب میں اچانک مارٹر گولا فائر کیا گیا۔جس میں حسینی بلڈ بنک کے روح رواں عنایت حسین سمیت تین شیعےہلاک ہوئے، نے جلتی پر تیل کا کام کیا، اور لشکر جو پہلے سے ہی تیار بیٹھا تھا،نےاعلان کرڈالا کہ اکبر روڈ مارکیٹ کے اندر جہاں سُنیوں کی دکانیں اور مکانات تھے وہاں کافی تعداد میں طالبان ہیں۔لہٰذا پوری مارکیٹ کو بھسم کردیا گیا۔
(طالبان کے کارندے جو پارا چنار مضافات میں گھات لگائے بیٹھے تھے ) اور گوریلہ جنگ کے ماہر تھے لہٰذا دُو بدُو لڑائی میں سینکڑوں جانیں ضائع ہوگئیں۔صدہ کے سُنی اسی انتظار میں تھے سو وہاں موجود شیعوں کا قتل عام کرنا شروع کردیا گیا۔ فوج نے پارا چنار میں کرفیو لگا کر کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا مگر تب تک لڑائی پارا چنار کے مضافاتی دیہاتوں تک پھیل گئی تھی۔ دُو بدُو شیعہ سُنی اور طالبان لڑائی درجہ ذیل مقامات پر لڑی گئی۔ گاؤں پیوار، کرمان، علم شیر، صدہ، بالش خیل اور بھوتار میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ ان میں کافی تعداد طالبان کی بھی تھی جن کو بقول آرمی گن شپ ہیلی کاپٹروں سے نشانہ بنایا گیا مگر اس کی تصدیق کسی آزاد ذرائع سے نہیں ہوسکی۔
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ افغانستان کی طرف سے شیعہ مسلمانوں پر آنے جانے کی کوئی روک ٹوک نہیں تھی مگر پشاور کا راستہ مکمل طور پر ان کے لئے بند تھا۔ آمدورفت، راشن اور دوائیاں نیٹو فورسز کے زیر نگرانی پاراچنار تک پہنچائی جاتی تھیں، مگر پاک فوج نے کبھی اس قسم کی کوئی زحمت گوارا نہیں کی،کہ اپنے شہریوں کے لئے کوئی بندوبست کرتے۔لہٰذا افغان حکومت کے لئے پارا چنار کے باسیوں کے دلوں میں نرم گوشہ کسی سے پوشیدہ نہیں تھا۔2013ء میں تحریک طالبان جو افغان طالبان کی حلیف ہونے کی دعویدار تھی،کا مرکزی کمانڈر حکیم اللہ محسود ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہوا ،اور طالبان دھڑا جو مسلسل پاک فوج کےآپریشنز کی وجہ سے منتشر تھا،مزید منتشر ہوگیا۔ آپریشن ضرب عضب اور خیبر ون اینڈ ٹو کی وجہ سے طالبان نے بالآخر افغانستان کی حدود میں اپنی پناہ گاہیں بنا لیں۔ مگر پارا چنار کا زخم وہ کبھی بُھلا نہ سکے۔ جیسے ہی محسود دھڑے نے اپنے پیر جما لئے،سب سے پہلے ان کی نظر انتخاب آچین اور ملحقہ ننگرہار کی سرحدوں پر پڑی۔
اسی اثناء میں اچانک عراق میں ایک نئی تنظیم داعش کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی جہادی میدان کا سارا نقشہ بھی مکمل طور تبدیل ہوگیا۔ عراق سے جنگ نکل کر شام تک اور وہاں سے عرب ورلڈ کے دہانے تک پہنچ گئی ۔جہاں ایران روس اتحاد نے عرب اتحاد کو دن میں تارے دکھانا شروع کردیئے،تو جواباً اچانک سے داعش کا عفریت عراق سے نکل کر شام کے اندر ایران کو براہ راست آنکھیں دکھانے لگا۔اسی کا فائدہ اُٹھا کر سب سے پہلے سرحدوں پر منتشر پاکستانی طالبان جو مرکزی لیڈر کے نہ ہونے کے باوجود بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے،انہوں نے داعش کی بیعت کی اورانتہائی بھونڈے طریقے سے اپنی موجودگی کا اعلان کیا۔نتیجتاً پارا چنار کے شیعہ جو اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے تھے،ان کی کچھ ذیلی تنظیموں نے براہ راست اپنا کردار بین الاقوامی طور پر شام میں برپا داعش شیعہ جنگ کی طرف موڑ لیا۔
(جاری ہے)
تعارف : بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک، مکالمہ ڈاٹ کام، یہ تحریر مصنف کی ذاتی تحقیق پر مبنی ہے۔