ارتقاء (مادی) کی تاریخ بِگ بینگ سے شروع ہوتی ہے اور اس کا نقطہِ عروج تخلیقِ انسانی ہے. اپنی بقا اور دوام کے لیے جو کچھ ایک انسان کو درکار تھا وہ انسان کی تخلیق سے پہلے ہی روئے زمین پر مہیا کر دیا گیا. جیسے جیسے انسانوں کی آبادی میں اضافہ ہوا تو سب سے پہلے خاندان کا ادارہ وجود میں آیا اور خاندان کے ادارے نے وسعت پا کر قبیلے کی صورت اختیار کی. اب ایک ایسے سماجی ضابطے کی ضرورت محسوس ہوئی جس کے تحت قبیلے کے تمام افراد باہم ہم آہنگی اور امن کے ساتھ رہ سکیں. یہاں سے سماجی یا معاشرتی ارتقاء کا آغاز ہوا. جب قبائل کی تعداد ایک خاص حد کو پہنچی تو اُن کے باہم اتصال سے شہری ریاستیں وجود میں آئیں. اور سماجی ارتقاء کے اس جاری عمل نے ان چھوٹی چھوٹی شہری ریاستوں کے انضمام سے سلطنت (empire) کو وجود بخشا. بادشاہت کے جبر تلے جب لوگوں نے گھٹن محسوس کرنا شروع کی اور جب انہیں اپنی بنیادی ضروریات اور حقوق سے محرومی کا احساس شدت سے محسوس ہونے لگا تو انہوں نے مراعت یافتہ طبقے کے خلاف بغاوت کر دی. اس سماجی بغاوت نے جمہوری ریاست کے تصور کو جنم بخشا۔
سماجی ارتقاء کے سفر نے لوگوں میں اُن کے بنیادی حقوق کی آگاہی پیدا کر دی ہے. جدید سماجی ضابطے یا معاہدے (social accord) نے فرد کی بنیادی حیاتیاتی، نفسیاتی اور معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے اور اُن کے تحفظ کی ذمہ داری ریاست کے فرائض میں شامل کر دی. ریاست پر لازم ٹھہرا کہ وہ اپنے شہریوں کی خوراک، رہائش، آزادیِ اظہارِ رائے، برابری، بھائی چارے اور حقِ خود ارادیت کے حقوق اور ضروریات کا ادراک و اعتراف کرے اور انہیں بہم مہیا کرنے کا اہتمام بھی کرے. ایسی انسان دوست ریاست کو فلاحی ریاست کا نام دیا گیا. لوگوں کو اپنی پسند کا رہنما یا نمائندہ چننے کا حق اور موقع ملا. مطلق حکمرانی کے تصور کی جگہ عوامی نمائندگی کے تصور نے لی.مراعات سے محروم طبقہ (جو پہلے مراعات یافتہ تھا) کے لیے رونما ہونے والی یہ مثبت سماجی تبدیلی کبھی بھی قابلِ قبول نہیں تھی. فلاحی ریاست کی چھتری تلے پروان چڑھتے سماجی اقدار کے اس نئے پودے سے حسد اور دشمنی کی آگ میں جلتے ہوئے مراعات سے محروم ہونے والے طبقے نے اِس سماجی نظام کے خلاف سازشیں شروع دن سے جاری رکھیں. سماجی ارتقاء کے مثبت سفر کو روکنے کی سازش اس وقت کامیاب ہوئی جب فلاحی ریاست کے تصور کی جگہ قومی سلامتی کی ریاست کے تصور نے لے لی.
یہ سازش بہت مکارانہ اور پُر فریب تھی. پرفریب دلیل یہ تھی کہ ریاست ہو گی تب ہی عوام محفوظ ہو گی. اس مکارانہ اور پُر فریب نعرے کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ریاست کا تحفظ عوام کے تحفظ پر مقدم قرار پایا. وہ ریاست جو پہلے عوام کے حقوق اور بنیادی ضروریات کی ضامن تھی، اب ایک ایسے مقدس وجود کی صورت اختیار کر گئی کہ جس کی بقا اور حفاظت کے لیے عوام کو حقوق تو کیا بلکہ اُن کو زندگی تک سے محروم کر دینا جائز قرار پایا. قومی سلامتی (ریاستی سلامتی) کے اِس پُر فریب بیانیے نے اُس سازشی اور غاصب مراعت یافتہ طبقے کو ایک بار پھر اپنی مکاری سے عوام کو اُن کے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کا موقع مہیا کر دیا. نتیجتاً قومی سلامتی کے اداروں کا حجم اور طاقت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے. جبکہ قومی فلاح و بہبود کے ادارے اپنے حجم اور طاقت کے لحاظ سے کہیں زیادہ کمزور ہوتے چلے گئے. قومی سلامتی کے اداروں کے حجم اور طاقت میں اضافہ صرف افرادی قوت تک محدود نہیں تھا بلکہ اُن کی طاقت کی اثر پزیری اور گہرائی اتنی زیادہ ہو گئی کہ وہ سماجی، معاشی اور سیاسی سطح پر امورِ خارجہ اور داخلہ سے متعلق پالیسی سازی پر بھی اثر انداز ہونے لگے. قومی سلامتی کی ریاستوں میں قومی دولت اور ذرائع کا زیادہ تر حصہ قومی سلامتی کے اداروں کے لیے وقف ہوتا ہے.
اپنی طاقت اور اثر کی بڑھوتری کے لیے قومی سلامتی کے یہ ادارے تمام سیاسی، انتظامی اور سماجی اداروں میں موجود اپنے مفاد پرست مہروں کے ذریعے سے اپنا ایک ایسا مقدس امیج قائم کرواتے ہیں جو ریاست کے ہم پلہ یا مترادف قرار پاتا ہے. جیسے ریاست کے خلاف بولنا غداری تصور ہوتا ہے اِسی طرح اِن اداروں پر تنقید کو بھی ریاست کے خلاف غداری کے مترادف ہی شمار کیا جاتا ہے. اگر کوئی شخص اِن اداروں پر تنقید کرنے کی جسارت کر بیٹھے تو اُس کو غدار، دشمن کا ایجنٹ یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے کر یا تو غائب کر دیا جاتا ہے یا ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے.قومی سلامتی کی ریاستوں میں کسی بیرونی دشمن کی موجودگی قومی سلامتی کے اداروں آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے. اُسی دشمن کے خوف کی بنیاد پر ہی تو قومی دولت اور وسائل میں سے یہ ادارے اپنا وسیع حصہ وصول کرتے ہیں.
موجودہ دور میں عالمی تجارت اور قومی و بین الاقوامی تجارتی ادروں کے مفادات نے ریاستوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات میں نرمی پیدا کریں. اِس صورتحال میں عالمی سطح پر سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے دہشت گردی کے نام کا ایک سایہ نما دشمن تخلیق کیا ہے تاکہ عوام کو اُس سے ڈرا کر قومی دولت اور وسائل میں اپنے لیے مقرر حصے کے حصول کو جاری رکھا جا سکے. دیگر قومی فلاح و بہبود کے ادارے اپنی کمزوری اور ضعف کی وجہ سے قومی سلامتی کے اِن اداروں کے مطالبات ماننے پر خود کو مجبور پاتے ہیں. جدید دنیا کے لیڈر امریکہ کی ہی مثال لے لیں جہاں عدالتیں ویسے ہی فیصلے صادر فرما دیتی ہیں جس قسم کے فیصلے اُن سے قومی سلامتی اور قومی مفاد کے نام پر طلب کیے جاتے ہیں. المیہ یہ ہے کہ مفاد پرست باطل قوتیں عالمی سطح پر اتنی پُر اثر ہو چکی ہیں کہ اُن کی بچھائی گئی بساط کے آگے ترقی یافتہ فلاحی ریاستیں بھی بے بسی کی تصویر بنے اب اپنا رُخ بدل کر قومی سلامتی کی ریاست بننے کے سفر پر گامزن نظر آتی ہیں. ایسی ریاستوں میں جس شخص پر بھی غدار یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ کا لیبل لگ جاتا ہے، ریاست کے تمام دوسرے ادارے (چاہے پولیس ہو، عدلیہ ہو یا میڈیا) اُس شخص کو کسی بھی قسم کی صفائی دینے کے موقع سے محروم کرتے ہوئے اُس سے جینے کا حق چھیننے کے جرم میں حصہ دار بننے پر خود کو مجبور پاتے ہیں.
انسانی آزادی، قانونی و معاشرتی مساوات اور حقِ خود ارادیت جیسی اقدار اور حقوق قومی سلامتی کے نام پر منسوخ قرار پاتی ہیں. جب قومی وسائل اور دولت کا بیشتر حصہ سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی ترقی، ترفع اور نمو کے لیے وقف ہو تو ایسی ریاستوں میں ہتھیار انسانوں سے زیادہ اہم قرار پاتے ہیں. ایسے معاشروں میں ڈاکٹر یا استاد کی بجائےجنگجو یا سپاہی ہیرو قرار پاتے ہیں. تاریخ اور فلسفہِ تاریخ اِس حقیقت پر شاہد ہیں کہ جب ریاست اپنی عوام کو آزادیِ اظہارِ رائے، اخوت، بھائی چارہ، مساوات، عدل و انصاف اور حقِ خود ارادیت کی اقدار اور حقوق سے محروم کرتی ہے تو لوگ ایک خاص وقت کے بعد قوتِ برداشت ختم ہونے پر نفسیاتی اور سماجی گھٹن محسوس کرنے لگتے ہیں. یہ گھٹن رفتہ رفتہ لوگوں میں ریاستی نظام پر براجمان مفاد یافتہ گروہ یا طبقے کے خلاف بغاوت کے جذبات پیدا کرنا شروع کر دیتی ہے. اِس گھٹن کے نتیجے میں اٹھنے والی بغاوت معاشرے میں انتشار اور افراتفری پیدا کرنے کا سبب بنتی ہے. مراعت یافتہ اور محروم طبقے کے اِس تصادم میں تبدیلی کی آواز بن کر اٹھنے والے لوگوں کا جیتنا اشد ضروری ہے. کیونکہ اگر وہ مراعت یافتہ طبقے کی طاقت کے مقابلے میں شکست کھا گئے تو ریاستی ڈھانچے کے وجود کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں. جب محروم طبقہ طاقتور مراعت یافتہ طبقے یا گروہ کے مقابلے میں خود کو بے بس محسوس کرتا ہے تو اُن کے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچتا سوائے آزادی کی تحریک اور مطالبے کے.
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
p.p2 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘Helvetica Neue’; color: #454545; min-height: 14.0px}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}