سعودی عرب کے آفیشل ریکارڈ کے مطابق سعودی عرب میں کل 80 لاکھ غیر ملکی کام کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں 50 لاکھ غیرملکی ایسے ہیں جنکی ماہانہ تنخواہ ایک ہزار سعودی ریال سے کم ہے اور اس سے بڑی بدقسمتی کی بات یہ کہ 25 لاکھ غیرملکی ایسے بھی ہیں جنکی ماہانہ تنخواہ 500 ریال سے بھی کم ہے۔ یہ اعداد و شمار سعودی آخبار روزنامہ الوطن میں جمعرات کو شائع ہوئے ہیں جو آنہوں نے سعودی سوشل انشورنس کے ادارے سے لئے ہیں۔
اگر ہم سعودی سوشل انشورنس کے سعودی شہریوں کے بارے میں اعدادوشمار دیکھیں تو ہم حیران ہونگے کہ 34500 سعودی شہری ایسے ہیں جنکی ماہانہ تنخواہ 2000 سعودی ریال سے کم ہے جبکہ 128000 سعودی لوکل ورکرز کی ماہانہ تنخواہ 3000 ریال سے کم ہے۔
زیادہ حیرانی کی بات ہے کہ 250,000 سعودی شہری اور 230,000 غیرملکی ایسے بھی ہیں جنکی ماہانہ تنخواہ دس ہزار ریال یا اس سے بھی زیادہ ہے۔ ان اعدادوشمار کو غور سے دیکھیں تو ایک سوال ہمارے ذہنوں میں آتا ہے کہ کیا اقتصادی صورتحال کو بہتر کرنے کی سعودی گورنمنٹ کی یہ پالیسی کہ غیرملکیوں کو باہر پھینک دیا جائے درست ہے اور کیا اس سے گورنمنٹ کے مالی حالات بہتر ہو جائیں گے جبکہ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ سعودی شہری عام طور پر 5000 ریال ماہانہ تنخواہ سے کم پر کام کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔
آسی لاکھ یا لگ بھگ ایک کڑور غیرملکی جو سعودی عرب میں کام کر رہے ہیں آن میں سے آدھے ماہانہ ایک ہزار ریال سے بھی کم تنخواہ لیتے ہیں۔ اگر ساری نوکریاں غیرملکیوں سے لیکر سعودی شہریوں کو دے بھی دی جائیں تو کیا گورنمنٹ اتنی زیادہ تنخواہیں دے پائے گی؟ کیونکہ سعودی لوکل شہری بہت بڑی تعداد میں بیروزگار ہیں اور وہ پانچ ہزار ریال ماہانہ سے کم پر نوکری کرنے کو تیار بھی نہیں ہیں۔
اسکی بجائے ایک طریقہ جو کہ عملی طور پر ہوسکتا ہے وہ یہ ہے کہ غیرملکیوں کو سعودی عرب میں کاروبار کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس سے سعودی مارکیٹ میں فوری طور پر بڑھوتری آئے گی اور فارن انوسٹمنٹ زیادہ ملک میں آئے گی اور جو غیرملکی یہاں کام کر رہے ہیں وہ اور جو پیسے والے باقی دنیا میں بھی ہیں وہ اپنے ملکوں سے پیسہ یہاں لا کر کاروبار میں لگائیں گے اور اس سے روزگار کے مواقع کئی گنا بڑھ جائیں گے اور آخرکار غیرملکیوں کے ساتھ ساتھ سعودی شہریوں کی بیروزگاری بھی ختم ہو جائے گی۔
ایک اورکام جو سعودی گورنمنٹ کرسکتی ہے اور اس سے کافی پیسہ کما سکتی ہے وہ وزٹ ویزہ کا طریقہ کار ہے۔ ساری دنیا میں حکومتیں وزیٹرز کو خود ویزہ دیتیں ہیں اور اس سے کافی پیسے کماتی ہیں جبکہ سعودی عرب وزٹ ویزہ بہت کم دیتا ہے اور کاروبار کا وزٹ ویزہ بھی دینے کا طریقہ بہت مشکل ہے۔ اور حج عمرہ کا ویزہ خود دینے کی بجائے سعودی گورنمنٹ آیجنٹوں سے دلاتی ہے جس سے سعودی گورنمنٹ کا کافی نقصان ہوتا ہے اور آیجنٹ لوگوں کو دھوکا بھی دیتے ہیں اسکی بجائے اگر سعودی گورنمنٹ ہر قسم کے ویزوں کا آختیار خود استعمال کرے اور ویزہ دینے سے پہلے گارنٹی کے لئے کچھ بڑی رقم اپنے پاس رکھے اور واپسی پر لوگ ایمبیسی سے وہ رقم لے لیں تو سعودی گورنمنٹ کو بہت سارا پیسہ بھی کچھ وقت کے لئے مفت مل جائے گا اور لوگوں کے غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں غائب ہونے سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔