عمومی طور پر تاریخ انسانی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی نوع انسان نے اپنی تخلیق سے لے کر آج تک ایک طویل شعوری سفر کیا ہے۔شعور کے اس سفر میں انسان نے اس کائنات کی وسعتوں کی جستجو میں مگن ہو کر اپنے لیے راحتیں کشید کیں۔انسان کی موجودہ ترقی میں شعور کو بنیادی مقام حاصل ہے۔انسان اور کائنات میں موجود دوسری مخلوقات میں بنیادی فرق ہی شعور کا ہے۔اسی لیے خالق نے انسان کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا ۔ شعور فطرت انسانی میں موجود ہے ۔مگر اس شعور کو استعمال کیے بغیر انسان اس دنیا میں سکون اور اطمینان اور پر لطف زندگی نہیں گزار سکتا۔شعور سے استفادہ کا حصول علم و حکمت کے بغیر کلی طور پر نا ممکن ہے۔
نبی کریم ﷺ اپنی حیات مبارکہ میں علم و حکمت کے حصول کی تلقین کرتے رہے۔ علم کی افادیت کو بیان کرتی مختلف احادیث مو جود ہیں۔سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضور کائنات علم کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔جنگ بدر کے قیدی لائے گئے فرمایااسلام کو قبول کر لو یا جزیہ دو اگردونوں کام نہیں کر سکتے تو ہر مسلمان کو تعلیم دے دو آپ کو معافی مل جائے گی۔
اب اگر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس واقعہ میں دنیاوی علوم کو اہمیت دی گئی ہے۔ کیونکہ دین کی تعلیم کے لیے تو حضور اقدس کی ذات موجود ہے۔ شعور کے سفر میں علم کی اہمیت واضح کرنے کے لیے طویل تمہید باندھی گئی تاکہ موضوع کا پس منظر آشکار ہو سکے۔ مسلمانوں کا شعوری سفر کس مقام پر ہے۔ اندازہ کیجیے کہ اس وقت دنیا میں علم و حکمت کے میدان میں کم ترین درجہ پر مسلمان ہیں۔ مسلمان شعوری سفر میں علم کے بغیر منزل سے کوسوں دور ہیں۔ دوسرے مذاہب اور اقوام نے اپنے شعور کو علم و حکمت کے حصول سے بلندی کے مقام پر سر فراز کیا۔ جبکہ مسلمانوں کا شعوری سفر تیزی کے ساتھ تنزلی اور ترقی معکوس کی جانب گامزن ہے۔ غیر مسلم اقوام نے علم سے انسان کی دنیا کو ترقی کی معراج پر پہنچادیا۔ فرعون اپنی تجوریوں کی چابیاں اونٹوں پر لاد کر لے جاتا تھا۔ انسانی شعور نے محض چند لفظوں پر محیط پاسورڈ کے ذریعے خدائی کے دعوایدار فرعون کے شعور کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔
آج تجوری کھولنے کے لیے چابی نہیں پاسورڈ ہی کافی ہے۔آج کے انسان کو دریا کے پار جانے کے لیے مہینوں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔سالوں کا سفر تیز ترین ذرائع نقل و حمل کی بدولت گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔موجودہ دور میں ہوائی جہاز سے لے کر خلائی جہاز تک ۔سمندری جہاز سے لے کر آبدوز تک کی تیاری سب غیر مسلم اقوام کے شعور کی مرہون منت کیوں ہے ؟فیس بک اسکائپ واٹس ایپ جیسی ایجادات میں مسلمانوں کے شعور اور فہم کی حصہ داری کہاں ہے ؟مسلمان کب تلک علم اور علمیت پر مبنی شعور کو جٹھلا کر اپنی قسمت کو روتے رہیں گے۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے گزشتہ پانچ سو سال سے مسلمان شعور سفر کو مکمل طور پر منجمد کر چکے ہیں۔سیاسی سماجی اور دنیا کے تمام مسائل کی گھتیاں سلجھانے کے لیے مسلمان کو کسی قسم کی ممانعت نہیں۔ پھر کیوں شعور کو بلند کرنے کے لیے علم کا راستہ اختیار نہیں کیا جا رہا۔ جہالت کی گہرائیوں سے نکلنے کا فقط ایک ذریعہ حصول علم ہے ۔ علم کی بدولت شعور کی بلندی ممکن ہے۔آج کا مسلمان دنیا میں موجود تمام وسائل پر دسترس ہونے کےباوجود دوسری اقوام کا محتاج کیوں ہے؟
درست راستوں کا انتخاب خود نہ کر کے اغیار کی سازش کا واویلا کیوں کیا جا رہا ہے۔دنیا کے تمام علوم کی بہترین درسگاہیں مسلمانوں کی کیوں نہیں؟شعور کے سفر میں روکاوٹیں کس نے ڈالیں؟کاش مسلمان جاننے کی جانب راغب ہوں۔کب تلک علم کو چھوڑ کر لایعنی مباحث میں الجھ کر اک دوسرے کا خون بہاتے رہیں گے۔سیاست معیشت ٹیکنالوجی سماجیات الغرض زندگی کے تمام شعبہ جات میں میں شکست کی ایک ہی وجہ ہے شعور کی کمی اور عدم وجود۔ شعور کیسے آئے گا جب علم کے ذریعے سے سفر طے کر کے شعور کی وسیع منزل حاصل کی جائے گی ۔کائنات کی تسخیر میں انسانیت کی فلاح پوشیدہ ہے ۔مسلمان شعور کے سفر علم کو شامل کریں ۔تسخیر کائنات ممکن ہے۔(مکالمہ ڈاٹ کام)
p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Geeza Pro Interface’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}