367

پاکستانی ریڈ انڈین

پچھلے دنوں فیس بک پر کرنل محسن آرائیں نے پاکستانیوں کے لیے ریڈ انڈین کا لفظ استعمال کیا تو مجھے یوں لگا جیسے یہ تو میرا لفظ تھا جو مْحسن چھین کر لے گیا۔ میں بہت دنوں سے اس موضوع پر لکھنے کے لیے تیاری کر رہا تھا اور دماغ کی لیبارٹری میں یہ موضوع پْک رہا تھا۔ مْحسن نے جب یہ لفظ مجھ سے پہلے استعمال کیا تو مجھے یوں لگا جیسے اْس نے میرے موضوع کا اسقاطِ حمل کرا دیا ہو۔ اب اگر میں بھی یہی لفظ استعمال کرتا ہوں تو یوں لگے گا جیسے میں نے یہ لفظ چوری کر لیا ہو۔ میں کئی دنوں سے اس گو مگو میں تھا کہ میں اس موضوع پر لکھوں یا نہ ؟ پھر میں نےسوچا کہ دنیا میں یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی دو فرد ایک دوسرے کو بتائے بغیر ایک ہی بات اپنی اپنی جگہ سوچتے ہیں اسکو ٹیلی پیٹتھی بھی کہا جا سکتاہےاس کے علاوہ اگر میں مْحسن کے اس لفظ کو استعمال کرتا ہوں تو کیا فرق پڑتا ہے۔ انا کے جھانٹ برابر مسئلے کے لئے میں اس موضوع کو پنجابیوں کے ساتھ سانجھا کرنا قربان نہیں کر سکتا۔


میں کئی بار اس سے قبل بھی لکھاہےکہ میرا دادا 1904 میں جہلم کے ایک چھوٹے سے بارانی گاؤں سے اٹھ کر ساہوال گنجی بار آ کے آباد ہوگیا۔ جہاں آ کر اسنے ڈیرے ڈالے یہ جنگل بیابان تھا اور وہاں اِنسان دوست ماحول نا ہونے کے برابر تھا۔ کانٹے دار جھاڑیاں ، بے پھل درخت، جنگلی جانوروں کی بہتات اور زہریلے سانپوں کی بھرمار۔ اْنہوں نے یہاں آ کر زمین میں بل کھود کر جانوروں کی طرح رہنا شروع کر دیا۔ سارا دن جنگل کاٹتے اور درختوں کے کٹے ہوئے تنے جڑ سے اْکھاڑتے اور شام گہری ہونے سے قبل کھانا کھا کر آپنی اپنی بلوں میں گھس جاتے ۔ ساری رات جنگلی سور ، بھیڑئیے ، ریچھ، جنگلی بلے اور دوسرے جانور بلوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ۔ بچپن میں چڑیا کوے یا بادشاہوں کی کہانیاں سننے کی بجائے ہم دادے سے اس زمانے کی کہانیاں بڑے شوق سے سنتے تھے۔ میں نے کئی بار سوال کیا :” بابا اس زمانے میں کیا آپ سے پہلے بھی کوئی لوگ بستے تھے؟”۔

بابا جی نے بڑی سی گالی نکال کر کہنا:” اور تو کوئی نہیں بس یہ بہن۔۔۔ جانگلی ہوتے تھے۔
جانگلیوں کا وہ ذکر ایسے کرتا تھا جیسے کہ وہ انسان نہیں بلکہ گنجی بار میں رہتے جنگلی جانور ہوں ۔ میں نے جانگلیوں سے کاو رو کا لفظ سنا تھا۔ اِن کے مطابق یہ ایک ایسا اِنسان تھا جو جنگلوں میں ایسے ہی رہتا تھا جیسے دوسرے جنگلی جانور ہونے۔ اسکا اور عام اِنسانوں کا فرق ایسے ہی فرق تھا جیسے گھریلو بلی اور جنگلی بلی کا ہو۔ اس انسان کی تصویر بھی عام اِنسانوں سے الگ تھی، یہ الف ننگا، جسم پر جانوروں ایسے بال ، اسکی ڈرائونی آنکھیں، بڑے بڑے دانت، ہاتھوں پائوں کے ناخن درندوں کے پنجوں جیسے یہ انسان سمیت ہر چیز کھا جاتا تھا۔ یہ شائد سب سے زیادہ خطرناک درندہ تھا، بچپن میں جب میں اس کاو رو یا جنگلی اِنسان کی تصویر اپنے خیالوں میں بناتا تھا تو اسکی تصویر گنجی بار کے ان جانگلیوں کے ساتھ گڈ مڈ ہو جاتی تھا۔ پھر یہ تصویر اس لئے بکھر جاتی کہ بار کے یہ جانگلی انسانوں جیسے تھے۔


میں جب بڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے علاقے میں انسان دو حصوں میں بٹے ہوئے تھے۔ ایک حصہ میرے دادے جیسے آباد کاروں کا تھا جو ذمیندار کہلاتے تھے دوسرا حصہ جانگلی تھے۔ جانگلیوں میں مزید کئی بانٹیں تھی۔ اوپر والے در جے کے جانگلی اور نیچلے درجے کے جانگلی نیچلے درجے کے جانگلی مزید دو درجوں میں بٹے ہوئے تھے۔ پہلا درجہ کمی جیسے لو ہار، بڑھئی، نائی، موچی، تیلی، کمہار، چوکیدار، بیگار پر کام کرنے والا، جولاہے اور کپڑوں کو رنگ کرنے والے وغیرہ۔ دوسرا درجہ مصلی تھے۔ ان میں سے مْصلیوں کا درجہ سب سے نیچے تھا ان کا حال ہندو اچھوتوں جیسا تھا اس لئے اس کو کئی بار چوہڑا بھی کہا جاتا تھا چوہڑوں سے بھی کم درجہ سانسیوں کا تھا۔ سانسی قدیمی شکاری تھے جو شائد اس دھرتی کے قدیمی باشندے تھے۔ یہ حلال حرام کی پرواہ نہیں کرتے تھے ہر جانور کا شکار کرتے تھے کئی بار یہ مردار بھی کھا جاتے تھے۔

بہت سے جانگلی آبادکاروں کے نوکر اور مضارعے تھے۔ آباد کار ان کو غریب اور حقیر سمجھتے تھے۔ ان کو پسماندہ اور بے تہذیبا uncivilised کہتے تھے “یہ گندے اور صابن کی بجائے لسّی سے نہاتے تھے، جانگلی عورتیں بالوں میں تیل کی جگہ گھی لگاتی اْن کے پاس سے بدبو آتی تھی۔ یہ ہانڈی نہیں پکاتے تھے دودھ یا لسّی کے ساتھ روٹی کھاتے تھی صرف بڑا گوشت کھاتے تھے۔ اپنے لوگ گیت ڈھولے گاتے ہوئے روتے اور بین کرتے لگتے تھے۔ ان کی شادی بیاہ کی رسمیں بھی نرا لی تھی کسی گاؤں سے لڑکی بیانے آئی بارات کا پتھر مار مار کر استقبال کرتے تھے۔ 
یہ انتہائی کنجوس تھے ان میں سے ہر شخص لازمی چور ہوتا تھا چوری بہادری کی علامت تھی۔ آبادکار اور مہاجر ان کی ہر بات کا مذاق اڑاتے تھے اور ان کو عجیب و غریب ناموں سے پکارتے تھے کنگ (لسّی) پینے والے ، دکھنے، جاٹ کھموس اور کئی ۔ ان کی بولی، اٹھنے بیٹھنے رہن سہن مرنے جینے کی طرف ناک چڑھا کر دیکھا جاتا تھا۔ میرا رویہ بھی ان کی طرف آبادکاروں والا تھا، ان کی یہ تصویر تب بدلی جب میں لاہور آ کر کالج میں داخل ہوا اور اس وقت چل رہی سیاسی ہوا کے جھونکوں کے ساتھ میرا رْخ بھی بائیں طرف کی سیاسی سوچ کی طرف جْھک گیا۔ اس سیاسی سوچ کے اثرکے تحت سب ایسے تعصبوں سے آزاد ہو کر میں نے پہلی بار ان کو انسانوں کی جون میں شامل کیا۔ اس کے بعد میں نے جب تاریخ کو بڑے غور کے ساتھ پڑھا تو ان کی تصویر اور طرح کی لگی اور یہ مجھے مظلوم بھی لگے اور ہیرو بھی۔ ہر وہ حملہ آور جو مغرب یا شمال کی طرف سے آیا یہاں سے گزر کر آگے دلی یا کسی اور جگہ گیا اور اس کا پہلا نشانہ یہی لوگ بنے یہ حملہ آور یو نانی،سفید ہن عربی، ترکی، افغان، ایرانی، منگول یا کوئی اور تھے۔ ان حملہ آورں نے ان کا بے انداز اور بیدردی کےساتھ قتل وغارت کیا۔ 
ان کو لوٹا، ان کی عورتوں کے ساتھ زبر زنا کیے اور لوٹ کے مال طرح ان عورتوں کو بھی زبردستی ساتھ لے گئے۔ جیسے سمندر کی لہریں ایک کے بعد دوسری ساحل کی طرف آتی ہیں تاریخ میں باہرونی حملہ آور بھی لہروں کی طرح آئے۔ ایک کے بعد دوسرا ان جانگلیوں کو قتل کرنے، لوٹنے اور ان کی عزت مٹی میں ملانے کے لیے آتا رہا۔ ان حملہ آوروں کے ٹو لوں کے آخری ٹولے انگریز کا نشانہ یہ دو بارہےبنے۔ پہلی بار 1849 میں جب انگریزوں نے راجہ رنجیت سنگھ کے پنجاب کو فتح کیا اور سب پنجابیوں ساتھ یہ بھی نشا نہ بنے دوسری بار جب 1857 میں احمدخان کھرل کی لیڈرشپ میں انہوں نے آزادی کی جنگ لڑی ۔ پہلی بار ان کو مارنے کے لیے انگریزوں کے ساتھ بنگال رجمنٹ میں شامل یو پی سی پی کے مسلمان اور دوسرے اردو ہندی بولتے سپاہی آئے دوسری بار 1857 ان یو پی سی پی والوں کے ساتھ مقامی ہندو سکھ مسلمان بھی مل گئے جنہوں نے 1849 میں شکست کھانے کے بعد انگریز کی وفاداری کی قسم کھائی تھی۔

تاریخ میں یہ جانگلی صرف مظلوم ہی نہیں بلکہ ہیرو بھی تھے۔ سالہا سال باہرونی لٹیروں کے ظلم اور جبر کا نشانہ بننے کے باوجود انہوں نے اپنی بولی کلچر رہن سہن اور اپنی شناخت سلامت رکھی۔ ان لٹیروں کی بولیوں کے لفظ چوس لئے لیکن اپنی بولی زندہ رکھی۔ لٹیروں کے ساتھ آئے جو سپاہی اور کارندے یہاں بس گئے جانگلیوں نے اپنے پیار اور بہتر کلچر کے زور سےسب کو جذب کر لیا ۔ میں جب ریڈ انڈین کی بات کرتا ہوں تو یہ جانگلی ہندستان کے ریڈ انڈین تھے امریکہ کے ریڈ انڈین کو نیست ونامود کرنے کے لئے ایک بار یورو پی گورے امریکہ آئے لیکن ان جانگلیوں کو نیست و نمود کرنے کے لئے صدیوں سے رنگ برنگے لٹیرے آتے رہے۔ آج تک جن لٹیروں نے ان پر سب سے کڑی چوٹ لگائی یہ انگریز تھے۔ 1857 کی جنگ کے بعد انگریزوں نے پنجابی کہاوت کے مطابق مارو نا پیٹو انتڑی کو بند کردو پر عمل کرتے ہوئے ان کی چراگاہوں اور کھیتی باڑی کی ذمینیں چھین کر اپنے وفاداروں کو دے دیں ان بھوکوں اور ان پڑھوں کو مزید نیچے دبانے کے لئے ان کی بولی اور کلچر چھیننے کے لئے انجانی بولی اردو کا ہتھیار استعمال کیا ۔ 

سالہا سال لٹیروں نے یہاں آ کر جانگلی بولی سیکھی لیکن انگریز اور اسکے چیلوں نے الٹ کیا اور کہا: اپنی بولی چھوڑو اور ہماری سکھو ۔اس شکنجے کو چڑھانے وا لے یو پی اور سی پی والوں کے ساتھ یہاں کے مقامی میر جعفر اور صادق مل گئے جنہوں اپنے جانگلی ہونے کے فخر کو مار کر ان سے اجنبی بولی اور کلچر کے ذریعے ریڈ انڈین بنا دیا۔ اس لہر نے پھیل کر سارے پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آج پاکستان کا ریڈ انڈین صرف جانگلی نہیں بلکہ اردو اور یو پی کے کلچر کے ذریعے سارا پنجاب ریڈ انڈین بن چکا ہےجن کا بیج تک تلف کرنے کے لئے کاٹھے انگریز اور یہاں کے میر جعفر اور صادق ہر وقت کمر کس کر لگے ہوئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں