اُولڈ ہاؤس تین ستاروں والے ہوٹل کی طرح بہت خوبصورت ہوتا ہے جس میں ذاتی کمروں کے ساتھ ساتھ ہر فلور پر ایک ٹی وی لاؤنج، باورچی خانہ اور کھانے کا کمرہ موجود ہیں۔ جب معمر افراد کمرے کی تنہائی سے تنگ آجاتے ہیں تو وقت گزاری کے لیے کامن ایریا میں آ کر ٹی وی دیکھتے ہیں گپ شپ لگاتے ہیں یا کوئی کتاب بھی پڑھ لیتے ہیں۔
جینی کی عمر لگ بھگ پچاسی سال ہے اور وہ گزشتہ تین سال سے اس اُولڈ ہاؤس میں مقیم ہے، جہاں دوسرے لوگوں کی طرح اسے بھی ایک بڑا کمرہ بمعہ باتھ روم ملا ہوا ہے۔ کمرے میں ایک بیڈ، صوفہ، آرام کرسی، دیواروں پر جینی کی جوانی اور اُدھیڑ عمری کی تصاویر اور وارڈروب میں اسکے پسندیدہ ملبوسات موجود ہیں۔
جینی کو ڈائمنشیا کی بیماری ہے جس سے اسکی یادداشت بہت زیادہ متاثر ہوگئی ہے اور اسے اپنی گزشتہ زندگی کی زیادہ تر چیزیں بھول گئی ہیں۔ یہ ہر روز صبح اُٹھ کر کمرے سے باہر نکلتی ہے تو کہہ رہی ہوتی ہے،
”اوہوہو اوہوہو اوہوہو”
سامنے سے کوئی نرس نظر آجائے تو سوال کرتی ہے،
“کیا میں زندہ ہوں؟”
جواباً نرس اسے یقین دلاتی ہے کہ وہ سو فیصد زندہ ہے تو کہتی ہے،
“لیکن مجھے یہ محسوس کیوں نہیں ہوتا”
وہ ہر چیز بھول چکی ہے اسے یا تو اپنا بچپن یاد ہے یا اپنے بچوں کا بچپن یاد ہے۔ روز ڈیوٹی پر موجود نرس سے کہتی ہے میرا چھوٹا بیٹا باہر کھیلنے گیا تھا وہ آ گیا ہے؟ جب وہ واپس آئے تو اسے کھانا کھلانا اسکا خیال رکھنا۔
وہی چھوٹا بیٹا جو اب خود چالیس سال کا ہے، ویک اینڈ پر، کسی چُھٹی کے دن یا تہوار پر ماں کو ایک گھنٹہ کیلئے ملنے ضرور آتا ہے، بیٹا دیکھتے ہی جینی اسے گلے لگاتی، چومتی ہے، ایسے لگتا ہے جیسے کھیلنے گیا بیٹا کچھ لمحوں کیلئے واپس آگیا ہے۔