تاجر خاندان کیلئے اک علامتی داستاناسے کیوں نکالا ؟کیا طفیلیوں کو تیسری فرد جرم کے بعد بھی سمجھ نہیں آرہی یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے یا سمجھ جانے کے باوجود ماننے سے انکاری ہیں کہ آخر نمک حلالی بھی کوئی چیز ہے۔ ایسی شخصیت پرستی بھی کیا کہ کوئی کرپٹ اپنے وطن سے بھی زیادہ عزیز اور پیارا ہو جائے ہائے پاپی پیٹ !’’فلیگ شپ ریفرنس میں نواز صاحب کرپشن کے مرتکب پائے گئے ‘‘’’بیش قیمت بے نامی جائیدادیں بنائیں‘‘’’حسن نواز کا 90ء کی دہائی میں کوئی ذریعہ آمدن نہیں تھا‘‘’’15آف شور کمپنیاں بنائیں اور سرکاری عہدے کے ساتھ ان کے ڈائریکٹر بھی رہے ‘‘’’بیٹوں کے نام پر جائیدادیں بنائیں۔
ذرائع ثابت کرنے میں ناکام ‘‘’’بغیرکسی دلیل کے ملزم /مجرم کا صحت جرم سے انکار ‘‘لیکن کب تک ؟کہ قصہ تو چل سو چل ہے ….بس اس دن کا انتظار ہے جب مجرم تو اعتراف جرم کر لےگا لیکن قصیدہ گو، طفیلئے اور پالتو پھر بھی نہیں مانیں گے۔ابو جہل یاد آتا ہے اور اس کا انجام بھی ،صاحبزادی کو والد پر فرد جرم کی خبر سے ڈکٹیٹر مشرف یاد آ گیا حالانکہ مشرف نے غیر ملکی مداخلت پر انہیں غیر مشروط معافی دیدی تھی کہ جس نے عمرقید، سزائے موت معاف کر دی، اس نے کرپشن پر پکڑنا اور ٹینٹوا دبانا تھا ؟ یہی مہربانی پرویز مشرف کا سب سے بڑا جرم بلکہ گناہ تھی لیکن آج اس موضوع پر اس سے زیادہ کچھ نہیں کیونکہ میں نے گزشتہ کالم میں وعدہ کیا تھا کہ گو اس خاندان کو بینک اسٹیٹ مینٹس پڑھنے اور چیک لکھنے کے علاوہ پڑھنے لکھنے سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں ……میں انہیں کچھ ایسا ’’پڑھانے ‘‘ کی کوشش کروں گا جس کے بعد یہ جان سکیں گے کہ ستارے گردش میں ہوں تو انسان یا کسی خاندان کو کیا کرنا چاہئے ۔
خود تو انہوں نے خاک پڑھنا، ان کا کوئی پڑھا لکھا طفیلیا انہیں یہ کہانی پڑھا دے یا سنا دے تو شاید یہ ذرا بہتر انداز میں سوچ اور ایکٹ کرسکیں۔کہانی کچھ یوں ہے ۔ایک تھا بادشاہ جسے اک طویل جنگ کے دوران ایک دولت مند تاجر نے آئوٹ آف دی وے جاکر مالی طور پر بے تحاشہ سپورٹ کیا۔بادشاہ نے جنگ جیتنے کے بعد اس تاجر کے اعزاز میں ضیافت کا اہتمام کیا جس میں اسے اعزازواکرام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ اس تاجر کو سلطنت کا محسن اور اپنا بھائی قرار دیتے ہوئے اسے اپنے ہاتھوں سے اپنی انگوٹھی پہنائی جو اس بات کا اعلان تھا کہ وہ تاجر سلطان کے بعد سلطنت کا دوسرا اہم ترین آدمی ہے ۔وقت گزرتا رہا کہ تاجر کو پے درپے نقصانات نے گھیر لیا، دولت کی دیوی اس سے روٹھ گئی اور تجارت کے دیوتا نے اس سے منہ پھیر لیا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ تاجر مقروض ہوگیا ۔
اس کے اہلخانہ اور احباب نے اسے کہا بھی کہ بادشاہ سے مدد مانگو لیکن وہ تاجر، تاجر ہونے کے باوجود خوددار تھا، اس نے انکار کر دیا تو آہستہ آہستہ اس کے اثاثے بھی بک گئے اور وہ ایک معمولی سے مکان میں منتقل ہوگیا تو سلطان کو بھی خبر ہو گئی ۔سلطان بے چین ہو کر اپنے اہم ترین درباریوں کے ساتھ خود اس کے پاس گیا اور شکوہ کیا کہ اس نے اپنے حالات بارے سلطان کو اعتماد میں کیوں نہ لیا۔گلے شکوے کے بعد سلطان نے اپنے ’’اہل‘‘ وزیر اعظم کو حکم دیا ’’میرے اس تاجر بھائی کی مکمل بحالی تمہاری اولین ذمہ داری ہے، خزانوں کے منہ کھول دو، یہاں تک کہ میرا یہ محسن اپنی کھوئی ہوئی حیثیت دوبارہ حاصل کر لے‘‘وزیر اعظم نے اپنے انداز میں اپنے آقا کے احکامات کی تعمیل شروع کر دی ۔
سلطان گاہے گاہے اپنے وزیر اعظم سے اپنے تاجر دوست کی خیر خیریت معلوم کرتا اور خوش ہوتا رہا ۔ادھر وزیر اعظم نے یہ کیا کہ کنگال ہو چکے تاجر کو ایک ہزار نرمادہ بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لے دیا اور ساتھ اپنا ملازم نتھی کر دیا جو وزیر اعظم کو ریوڑ کے حالات سے باخبر رکھتا۔کبھی دو سو کبھی چار سو کبھی 800جانو ر مر جاتے تو وزیر اعظم فوراً نئے بھجوا دیتا یہاں تک کہ ایک بار پورا ریوڑ بیماری کی زد میں آ کر مر گیا تو وزیراعظم نے ہزار جانور مزید بھیج دیا ۔جانوروں کا مرنا اور وزیر اعظم کا پورا کرنے والا یہ کھیل دو تین سال چلتا رہا کہ بتدریج نہ صرف جانور مرنے بند ہو گئے بلکہ ان کی تعداد میں اضافہ بھی ہونے لگا یہاں تک کہ ایک ہزار جانور کا ریوڑ دوتین گنا ہوگیا۔بادشاہ تو دوست کے حالات سے باخبر رہتا ہی تھا لیکن وزیر اعظم اسے اپنے انداز میں باخبر اور بے فکر رکھتا اور ’’سب اچھا ‘‘ کی رپورٹ دیتا رہتا ۔
تاجر کا ریوڑ دو تین گنا ہونے پر وزیراعظم نے بادشاہ کو دوست کا حال پوچھنے پر بتایا ۔’’سلطان معظم !آپ کے دوست خوش ہیں اور عنقریب اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں گے ‘‘ بادشاہ بہت خوش ہوا اور پوچھا …..’’تم نے کبھی تفصیل سے کچھ نہیں بتایا ۔آج تفصیلاً بتائو تم نے میرے محسن، دوست اور بھائی کیلئے کیا کیا کچھ کیا؟‘‘وزیر اعظم نے جونہی بتایا کہ اس نے سلطان کے دوست کو صرف ایک ہزار بھیڑ بکریوں کا ریوڑ لیکر دیا اور کبھی مال مویشی کی تعداد نہیں گھٹنے دی تو بادشاہ کا غیظ وغضب، جاہ وجلال انتہا کو پہنچ گیا اور اس نے شاہی جلاد کو طلب کیا تاکہ وزیر اعظم کی گردن اڑاوائی جاسکے۔وزیر اعظم نے عرض کیا ’’حضور! ہم انسان برے وقت کو صرف ٹال سکتے ہیں، اس سے نہ لڑ سکتے ہیں نہ جیت سکتے ہیں ۔آپ کے دوست پر برا وقت تھا، ستارے گردش میں تھے۔
میں آپ کا سارا خزانہ بھی اسے دے دیتا ،وہ غارت ہو جاتا کہ وقت ہی غارت گر تھا ۔اس کا ہزار جانور پر مشتمل ریوڑ ہی گھٹتا رہتا جو اب کئی گنا بڑھ چکا یعنی وقت ہی ایسا تھا کہ سونے کو ہاتھ لگاتا وہ مٹی ہو جاتا ، اب دوبارہ اس کی کیفیت یہ کہ جس مٹی کو ہاتھ لگائے گا وہ سونا ہو جائے گی …..اب جو چاہیںسزا دے دیں میری گردن حاضر ہے‘‘بادشاہ اس وضاحت پر دنگ رہ گیا فوراً دوست سے ملا نوٹس ایکسچینج کیلئے تو تاجر نے وزیر اعظم کی فراست کو سراہتے ہوئے کہا …’’وہ ٹھیک کہتا ہے، ادھر جانور مرنا بند ہوئے، ادھر ہیرے جواہرات سے لدا میرا وہ بحری جہاز مل گیا جو طوفان میں لاپتہ ہو کر غائب ہو گیا تھا اور میرا کپتان اسے اس جزیرے سے نکال لایا جہاں وہ دو ڈھائی سال یرغمال رہا ‘‘کیا حکمت اور حماقت کے درمیان جھولتی، ڈگمگاتی، گنگناتی یہ علامتی کہانی ان کو سمجھ آ سکتی ہے ؟آئے نہ آئے، میں نے وہ وعدہ پورا کر دیا جو گزشتہ کالم میں کیا تھا کہ ستارے گردش میں ہوں تو انسان کو کیا کرنا چاہئے ۔