331

مُسلمانوں سے آخِر غلطی کہاں ہُوئی۔ تصیح کیسے ہوگی؟

فرض کریں میرے دادا نے میرے والِد کو کراچی سے اسلام آباد جانے کا نقشہ بنا کر دے دیا۔ میرے والِد، میری اور میرے بیٹے کی زندگی میں کراچی سے اسلام آباد کے راستے میں سینکڑوں پُل، بائے پاس اور موٹرویز بن چُکے۔ ہم میں سے جو بھی کراچی سے اسلام آباد کا سفر کرتا رہا وہ دادا کے دیے ہُوئے نقشے کو اَپڈیٹ کرتا رہا اور آخِر وہ نقشہ میرے پوتے تک پُہنچا۔ اب اُسے سفر کرنا ہوگا۔

اگر ہم نقشہ اپڈیٹ نہ کرتے رہتے تو یقیناََ میرا پوتا میرے دادا کے بنائے ہُوئے نقشے کے مُطابق کراچی سے اسلام آباد جانے کی کوشش میں مسائل کا شکار شکار ہوتا لیکن چُونکہ ہم ہر نئی ہونے والی تبدیلی دادا کے دیے ہُوئے نقشے میں درج کر چُکے ہیں لہٰذا میرا پوتا کسی بڑی پریشانی کے بغیر اِس راستے پر نہ صرف سفر کر سکتا ہے بلکہ وہ آکر یہ ضرور بتائے گا کہ اُس نے نقشے میں کُچھ نئے بائے پاس بھی ایڈ کیے ہیں جو اُس نقشے میں نہیں تھے جو میرے بیٹے نے اُسے دیا تھا۔

اِس مثال میں جو غلطی میرے والد سمیت میرے بیٹے اور پوتے نے نہیں کی مُسمان سے عملاََ وہی غلطی ہُوئی۔
اِس نے ابتدائی فقیہین کا دیا ہُوا نقشہ اپڈیٹ نہیں کیا۔ مُسلمان کے یہ نقشہ اپڈیٹ نہ کرنے کی وجہ یہ رہی کہ اس نے چند نسلوں کے بعد نقشے کی حفاظت کو مقصد بنا کر نقشے میں بتایا ہُوا سفر کرنا ہی چھوڑ دیا۔

آپ چُونکہ یہ مثال سجھ چُکے ہیں اس لیے یہ مضمُون سمجھنے میں شاید مُشکل نہ ہو۔

اللہ نے تو قُرآن اور عقل دے کر نبُوّت تمام کی تھی، سہل پسندوں نے ایک خاص زمانے میں عقل بھی تمام سمجھ کر اپنے تئیں ختمِ فقیہین پر اجماع اپنی اگلی نسلوں کو تحفے میں دے ڈالا۔

فِقّہ دین کا حِصہ ہونے کے باوجُود مجمُوعی طور پر دین کا ایک چوتھائی بھی نہیں کہلا سکتا۔

کسی منزِل پر پُہنچنے کے لیے نقشے کی جو اہمیت ہے وہی فِقّہ کی اسلام کے مقصد میں اہمیت ہے۔ لیکن جیسے آپ نقشہ حاصل کرتے ہی منزِل پر نہیں پُہنچ جاتے بلکہ نقشے کے مُطابق ہزاروں میل سفر کرنا ہوتا ہے ایسے ہی دین کی فقہی تشریح بھی کسی خام نقشے کی طرح بس مُسلمان کی ابتدائی اور عصری رہنُمائی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔

مُسلمان کو ہر دور میں نہ صِرف طویل سفر کرنا ہے بلکہ سفر کے دوران سامنے آنے والی نِت نئی عصری رُکاوٹوں کو پچھلے نقشے میں درج کرنا بھی مُستقبل کے فقیہین کی ذمّہ داری تھی۔ یعنی ہر دور میں نئے حقائق کے مُطابق نقشے کو اپڈیٹ کرنا یعنی فِقّہ کو کُشادہ کرتے چلے جانا بھی ہماری ذمّہ داری تھی۔ اگر فِقّہ نقشہ ہے تو کائنات کے نفع بخش علُوم وہ سفر ہے جو اسلام ہم سے طے کروانا چاہتا ہے۔

اسلام کی ابتدائی تین صدیوں میں تنگ نظر طاقتور طبقے کی جانِب سے بچھائی گئی تمام رُکاوٹوں کے باوجُود یہ دونوں کام ساتھ ساتھ چلتے رہے۔ نقشہ بھی بنتا اور اپڈیٹ ہوتا رہا اور سفر بھی جاری رہا۔ یعنی فِقّہ بھی لکھی جاتی رہی، فقیہین ایک دوسرے کے اختلافات کو برکت بھی سمجھتے رہے اور سائنسی و معاشرتی عُلوم کو کافِر بھی قرار دینے کی کسی میں ہمت نہ ہُوئی۔

جبکہ اُس دور کی عیسائی دُنیا میں سائنسی و معاشرتی عُلوم کے ماہرین زندہ جلائے یا مصلُوب کیے جاتے تھے۔ میری نظر سے ایک مغربی مُحقق کی بنائی ہوئی ایک لسٹ گُزری جس میں حضرت مُحمّدﷺ کے وصال کے تین سو سال بعد کے زمانے کی دُنیا کے ایک سو بتیّس سائنسدانوں کی تفصیل تھی۔

اُن میں سے ایک سو اکیس مُسلمان اور صرف گیارہ غیر مُسلم تھے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ گیارہ بھی اسلامی اداروں کے پڑھے ہوئے تھے۔ اور یہ وہ وقت تھا جب مُسلمانوں کا اثر پُوری دُنیا پر تھا۔ آخر یہ منظر بدلا کیسے۔ مُسلمان اس بُلندی سے پستیوں تک کیسے پُہنچے۔

یہ بتانے سے پہلے میں آپکو وہ دُعا بتاتا ہوں جو آپکے نبیﷺ نے مُسلمانوں کو سکھائی تھی۔ کیونکہ مُسلمانوں کی ذلّت کے پیچھے اس دُعا کے سبق کو بھُولنا بھی ایک اہم فیکٹر ہے۔ نبی کی دُعا کُچھ یُوں تھی۔

’’ اے اللہ مُجھے ایسا علم عطا فرما جو انسانوں کے لیے نفع بخش ہو اور میں ایسے علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو انسانوں کے لیے باعث نفع نہ ہو‘‘۔

بس اسی نفع بخش علم کو غیر دینی علم کہہ کر مُسلمانوں نے اپنی ذلّت کی تقدیر لکھی۔ اسی سے ملتی جُلتی ایک دوسری بڑی غلطی یہ ہوئی کہ وہ فقہی تشریح کو کُل دین سمجھ بیٹھے حالانکہ کائنات کے عُلوم سیکھے بغیر قُرآن کی مُکمّل سمجھ ممکن ہی نہیں۔

یاد رہے کہ جیسے قُرآن اللہ کی کتاب ہے ویسے ہی کائنات اللہ کی کتاب ہے جیسے قُرآن میں اللہ کی آیات ہیں ویسے ہی کائنات میں اللہ کی آیات ہیں۔

’’اللہ قُرآن میں کہتے ہیں بے شک آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور دن کے رات میں بدلنے میں یقیناََ اللہ کی آیات ہیں‘‘

یعنی ہمیں اللہ کی اس دعوت کو قبُول کرنا ہوگا۔ یعنی ہمیں کائنات کے تمام نفع بخش عُلوم میں مُسلسل غوطہ خوری سے اللہ کی کائنات میں آیات سے انسانوں کا فائدہ ڈھونڈنا تھا اسی عمل کے دوران ہم اللہ کی پہچان اور حقُ الیقین بھی حاصل کر لیتے۔

مُسلمان کی موجُودہ پس ماندگی کی بُنیادی وجہ نقشے کے حُصول کو منزل مان لینا اور اُسی منزل پر رُک کر اگلی صدیوں کا سفر کرنا ہے۔ اسی سے جُڑی غلطی فقُہا کی جانب سے دین کی تشریح کو کُل اسلام سمجھ کر قُرآن چھوڑ بیٹھنا تھا۔

مُسلمان یہ بھُول گیا کہ قُرآن ہر دور کے ہر خِطے کے لوگوں کے لیے اللہ کا براہِ راست مُکالمہ اور فِقّہ کسی مخصوص وقت، مخصُوص علاقے کے ذہین کے انسانوں کا اپنے وسائل کے تناظُر میں فہمِ قُرآن ہے۔

سادہ الفاظ میں کہُوں تو چوتھی اسلامی صدی میں مُسلمان نے اپنے جیسے انسانوں یعنی فقیہین اور محدّثین کے بُت بنا کر اُنکی ایسی پرستش شروع کی کہ دین سے مُتعلق اُنکی عصری دینی فکر میں قُرآن کو ہمیشہ کے لیے نہ صرف قید کردیا بلکہ فِقّہ اور حدیث کے علاوہ کائنات کے ہر علم کو دائرۂ اسلام سے خارج کر کے کافِر ٹھہرا دیا۔

آئمّہ کرام میں سے کوئی بھی سماجی ، طبعی یا دیگر عُلوم کا ماہر نہیں تھا اُنہوں نے اپنی سمجھ بُوجھ کے مُطابق بہت اچھا کام شروع کیا تھا۔ فُقَہا نے اپنے دور کے مسائل، وسائل اور مجمُوعی عصری علم کے مُطابق قُرآن سُنّت کی روشنی میں مُسافروں کی سہُولت کے لیے ایک عارضی نقشہ بنایا تھا جسے ہر دور کے مُسافروں نے قُرآن سُنّت اور اپنے سفر کے تجربات کی روشنی میں ترقّی دینی تھی۔

یعنی نہ صِرف طویل سفر کرنا تھا بلکہ سفر کے دوران ملنے والی رُکاوٹوں کو نئے نقشے میں درج کرنا تھا۔ زرعی سائنسدان کو بھی فقیہہ کا درجہ دینا تھا اور میڈیکل یا سوشل سائنٹسٹ کو بھی کیونکہ وہ اپنے اپنے ایریا کہ اولولامر تھے۔ اور قُرآن اُس وقت تک اولولامر کی ماننا لازم قرار دیتا ہے جب تک وہ اللہ اور رسولﷺ کے احکامات کے کے خلاف نہ جائے۔

اگر قُرآن علمی مُعجزہ ہے تو کائنات کے نفع بخش عُلوم حاصل کیے بنا نہ تو خود کے لیے اس سے رہنُمائی مل سکتی ہے نہ اسے باقی دُنیا پر اتمام حُجّت کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ہمیں واپسی کا سفر کرنا ہوگا۔

جہاں بُت پرستی اسلام میں داخل ہُوئی وہیں واپس جا کر تصیح کرتے ہُوئے اجتہاد کے دروازے کے آگے رکھ دی گئی چٹانیں ہٹانی ہونگی تاکہ ہمارا دور بھی نہ صرف نئے نقشے بنانے والے فُقَہا پیدا کرنا شروع کرے بلکہ نقشے کو خزانہ سمجھنے والی سوچ کو بھی ختم کرکے ایسے مُسافر تیار کرے جنہیں راستے میں موجود علُوم دریاؤں اور سمندروں میں غوطہ خوری کے ذریعےاپنے ساتھی انسانوں کے لیے خزانے ڈھونڈنے میں دلچسپی ہو۔

فقیہین اور مُحدّثین اگر نبوّت میں شریک نہیں تھے تو کسی بھی باعمل اور سمجھدار مُسلمان کو اپنے دور میں نہ صرف وہی نقشہ بنانے کا حق حاصل ہے جو اُنہوں نے بنایا بلکہ یہ ہر عاقل مُسلمان پر لازم ہے کہ اُس نقشے کو اپنے دور کے نئے حقائق کے تناظُر میں اپڈیٹ بھی کریں۔ یعنی یہ حق بھی ہے ذمّہ داری بھی۔

اجتہاد سائنسی اور مُعاشرتی عُلوم کے بغیر ناممکن ہے اور سائنسی اور مُعاشرتی عُلوم کو نفع بخش بنانے کے لیے ان علوم کے ماہرین کا قُرآن کی طرف آنا ضروری ہے۔ 

قُرآن میں اللہ کا دعوٰی ہے کہ اگرایمان والے صحیح راستے پر ہونگے تو اللہ اُنہیں لازمی زمین کا حُکمران بنائے گا۔پچھلوں کو اللہ نے یہ انعام دیا بھی لیکن اب اگر زمین پر ڈیڑھ سو کروڑ مُسلمان ہیں اور اُنکے پاس نہ صرف یہ کہ طاقت نہیں بلکہ وہ رُسوائی اور مغلُوبیت کے عذاب کا شکار ہیں تو لازماََ وہ مُسلمان کہلانے کے باوجود نہ تو اسلام پر ہیں نہ ایمان والے ہیں۔

اللہ پر ایمان کا کیا حقیقی مطلب ہے اور اس کا کائنات سے کیا تعلّق ہے اوراسلام کی اصل کی طرف واپسی کی سٹیجِز کیا ہونگی کیسے ہوگی۔ اس پر اگلی نشست میں بات ہو گی۔

p.p1 {margin: 0.0px 0.0px 0.0px 0.0px; text-align: right; font: 12.0px ‘.Noto Nastaliq Urdu UI’; color: #454545}
span.s1 {font: 12.0px ‘Helvetica Neue’}

اپنا تبصرہ بھیجیں